آپ کا سلاماردو شاعریاردو نظمگلناز کوثر

حیاتِ رواں

گلناز کوثر کی ایک اردو نظم

بظاہر کہیں کوئی ہلچل نہیں ہے

حیاتِ رواں اپنے مرکز سے چمٹی ہوئی ہے

بہت عام، بیکار، اُلجھے دنوں کی

ملائم سی گٹھڑی میں رکھی ہوئی

یہ فقط ایک بے نام سی دوپہر ہے

ہوا چل رہی ہے

نہ جانے کہاں

گہرے بے چین بادل کے ٹکڑے

اُڑے جا رہے ہیں

پریشان سڑکوں پہ بہتے ہوئے زرد پتے

فضا میں بکھرتا ہوا کچھ غبارِ مسلسل

ذرا پل دو پل کو

بہت دُور پتوں پہ ہنستا ہوا

تیز سورج

مگر پھر چمکتی ہوئی اِک کرن پر

جھپٹتے ہوئے گدلے بادل

کھلے آسماں پر ٹھہرتے نہیں ہیں

ہوا چلتی رہتی ہے رُکتی نہیں ہے

درختوں پہ شاخیں

اِدھر سے اُدھر ڈولتی ہیں

اِدھر سے اُدھر

میری چشم تصور میں اڑتے ہوئے چند ٹکڑے

لپکتے، جھپکتے خیالات کے میلے بادل

کہیں سطح دل پر ٹھہرتے نہیں ہیں

بظاہر جہاں کوئی ہلچل نہیں ہے

مگر یہ غبارِ مسلسل اُڑائے چلی جا رہی ہے

ہوا چلتی رہتی ہے رُکتی نہیں ہے

حیاتِ رواں اپنے مرکز سے چمٹی ہوئی ہے

مگر ایک بے نام سی دوپہر کے

سکوت نہاں میں

عجب بے کلی ہے

گلناز کوثر

گلناز کوثر

اردو نظم میں ایک اور نام گلناز کوثر کا بھی ہے جنہوں نے نظم کے ذریعے فطرت اور انسان کے باطن کو ہم آہنگ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ گلناز کوثر کا تعلق لاہور سے ہے تاہم پچھلے کچھ برس سے وہ برطانیہ میں مقیم ہیں، انہوں نے اردو اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنے کے ساتھ ساتھ ایل ایل بی کی تعلیم بھی حاصل کی، البتہ وکیل کے طور پر پریکٹس کبھی نہیں کی۔ وہ نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے ریسرچ اینڈ پبلیکیشن ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ رہیں، علاوہ ازیں انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے عالمی ادب بھی پڑھایا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ دو ہزار بارہ میں ’’خواب کی ہتھیلی پر‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button