- Advertisement -

شب ڈوب گئی

گلناز کوثر کی ایک اردو نظم

پھر گھور اماوس

رات میں کوئی

دِیپ جلا

اِک دِھیمے دِھیمے

سناٹے میں

پھول ہلا

کوئی بھید کھلا

اور بوسیدہ

دِیوار پہ بیٹھی

یاد ہنسی

اِک ہُوک اُٹھی

اِک پتا ٹوٹا

سَر سَر کرتی ٹہنی سے

اِک خواب گرا

اور کانچ کی

درزوں سے

کرنوں کا

جال اُٹھا

کچھ لمحے سرکے

تاروں کی

زنجیر ہلی

شب ڈوب گئی …

وہم ہے یا

وہم ہے یا کل رات تمہاری

گہری آنکھوں کے پیچھے

اک جال تنا تھا

درد کے دھاگے کھنچتے تھے

شفاف فضا میں

لمحہ بھر کو

مرغولہ سا چکراتا تھا

کرب کا بادل

سسکی لے کر اُٹھتا تھا

اور پتھر کی دِیوار کو چُھو کر

لوٹ آتا تھا

خالی خالی ہاتھوں کو

تکتے تھے …

اورتنہا لگتے تھے

وہم ہے …یا

کل رات

کوئی کرچی سی حیراں پور پہ آ کے

ٹھہر گئی تھی

سانسوں کی زنجیر سے کٹ کے

مدھم سی اِک ہچکی

بوجھل رات کے دل میں اُتر گئی تھی

دیکھو تو کل رات کا منظر

کمرے کی خاموش فضا میں

گڑا ہوا ہے

وہم ہے یا کچھ اور ہے

کیا ہے …

خمار اُترے گا تو کھلے گا

ابھی تو لہروں پہ

بہتے جاؤ

سلگتے رنگوں کے زاویوں سے

بھنور اُٹھاؤ

حیات کے دوسرے سرے سے

بس ایک لمبا سا کش لگاؤ

دھواں اُڑاؤ

ابھی تو گہرے سنہرے پانی میں

کھنکھناتی ہنسی ملاؤ

نشہ بڑھاؤ

دہکتے غنچوں پہ

سبز جھیلوں پہ نظم لکھو

ابھی بہاروں کے گیت گاؤ

خمار اُترے گا تو

بلاخیز ساعتوں کی خبر ملے گی

خزاں نصیبوں کے قافلوں سے

گلاب لمحے گزر گئے تو پتہ چلے گا

اُجاڑ صحرا ہے زندگی کا

سفر کڑا ہے

خمار اُترے گا تو کھلے گا

الم زدہ، دلگداز لمحہ وہیں پڑا ہے

چاند بُجھ گیا لیکن

پورے چاند کی شب تھی

آج بھی شبستاں کے

راہ رو بھٹکتے تھے

چاندنی درختوں پر

نم گزیدہ جھونکوں کی

آہٹیں سجاتی تھی …

بہتے بہتے خوابیدہ

وقت کی نگاہیں جو

خواب کی ہتھیلی پر

اِک سوال بُنتی تھیں

اور تڑپ کے سردیلی

موج کپکپاتی تھی

دیر تک دریچوں سے

اِک صدا اُبھرتی تھی …

اِک صدا اُبھرتی تھی

اور ڈوب جاتی تھی

چاند بجھ گیا لیکن

بے نوا صداؤں کا

کھیل اب بھی جاری ہے

رات ڈھل گئی لیکن

دُور کے درختوں پر

درد کے ہیولوں کا

رقص اب بھی جاری ہے …

گلناز کوثر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
گلناز کوثر کی ایک اردو نظم