اردو شاعریاردو غزلیاتمیر تقی میر

رشتہ کیا ٹھہرے گا یہ جیسے کہ مو نازک ہے

میر تقی میر کی ایک غزل

رشتہ کیا ٹھہرے گا یہ جیسے کہ مو نازک ہے
چاک دل پلکوں سے مت سی کہ رفو نازک ہے

شاخ گل کاہے کو اس لطف سے لچکے ہے کہیں
لاگ والا کوئی دیکھے تجھے تو نازک ہے

چشم انصاف سے برقع کو اٹھا دیکھو اسے
گل کے منھ سے تو کئی پردہ وہ رو نازک ہے

لطف کیا دیوے تمھیں نقش حصیر درویش
بوریا پوشوں سے پوچھو یہ اتو نازک ہے

بیڑے کھاتا ہے تو آتا ہے نظر پان کا رنگ
کس قدر ہائے رے وہ جلد گلو نازک ہے

گل سمجھ کر نہ کہیں بے کلی کرنے لگیو
بلبل اس لالۂ خوش رنگ کی خو نازک ہے

رکھے تاچند خیال اس سرپرشور کا میر
دل تو کانپا ہی کرے ہے کہ سبو نازک ہے

میر تقی میر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button