لٹ چکے بک چکے پھر بھی آزار میں
کب سے بے بس ہیں مغرب کے بازار میں
یہ کمانیں، یہ شمشیر و تیر و سناں
میرے آباء کی جدوجہد کے نشاں
یہ چاندی یہ سونا یہ لعل و گہر
جاوداں کر گیا جن کو دستِ ہنر
یہ شکستہ صنم یہ حسیں مورتیں
میری تہذیب کی گمشدہ صورتیں
یہ ٹوٹی ہوئی خوشنما طشتری
جس پہ لکھی ہے تاریخِ کوزہ گری
یہ شکستہ صراحی پہ تشنہ سبو
مجھ سے کرتے ہیں بے ساختہ گفتگو
جا بجا یہ نوادر سجائے ہوئے
مجھ سے شاکی ہیں یہ بت چرائے ہوئے
لٹ چکے ، بک چکے ، پھر بھی آزار میں
کب سے بے بس ہیں مغرب کے بازار میں
سعید خان