اردو شاعریاردو غزلیاتقمر جلال آبادی

کرتے بھی کیا حضور نہ جب اپنے گھر ملے

ایک اردو غزل از قمر جلال آبادی

کرتے بھی کیا حضور نہ جب اپنے گھر ملے

دشمن سے ہم کبھی نہ ملے تھے مگر ملے

بلبل پہ ایسی برق گری آندھیوں کے ساتھ

گھر کا پتہ چلا نہ کہیں بال و پر ملے

اُن سے ہمیں نگاہِ کرم کی امید کیا

آنکھیں نکال لیں جو نظر سے نظر ملے

وعدہ غلط پتے بھی بتائے ہوئے غلط

تم اپنے گھر ملے نہ رقیبوں کے گھر ملے

افسوس ہے یہی مجھے فصلِ بہار میں

میرا چمن ہو اور مجھی کو نہ گھر ملے !

چاروں طرف سے شمعِ محبت کی روشنی

پروانے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کے لائی جدھر ملے

قمر جلال آبادی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button