پوشیدہ کیا رہے ہے قدرت نمائی دل
دیکھی نہ بے ستوں میں زور آزمائی دل
ہے تیرہ یہ بیاباں گرد و غبار سے سب
دے راہ کب دکھائی بے رہنمائی دل
اندوہ و غم سے اکثر رہتا ہوں میں مکدر
کیا خاک میں ملی ہے میری صفائی دل
پیش آوے کوئی صورت منھ موڑتے نہیں وے
آئینہ ساں جنھیں ہے کچھ آشنائی دل
مر تو نہیں گیا میں پر جی ہی جانتا ہے
گذرے ہے شاق مجھ پر جیسی جدائی دل
اس دامگہ میں اس کے سارے فریب ہی ہیں
آتی نہیں نظر کچھ مجھ کو رہائی دل
گر رنگ ہے چلا ہے ور بو ہے تو ہوا ہے
کہہ میر اس چمن میں کس سے لگایئے دل
میر تقی میر