بت خانہ ء تشکیک کے اوتار خبردار
نیزے سے مخاطب ہے ابھی مرد ہمارا
والنار کی جانب تھے رواں مشرک و ملحد
لہجہ جو سرِ شام ہوا سرد ہمارا
حق یہ ہے کہ با اذنِ خدا، روزِ ابد تک
پاپوش بھی دستار کریں کرد ہمارا
ماہ نور رانا
۔۔
رمز پہچان، کوئی ہے جو مرے ہونٹوں پر
ایسے حالات میں بھی خیر کا جملہ لایا
شکر صد شکر، سرِ مقتل و مامن ، کوئی
اپنے اجداد کا سونپا ہوا ورثہ لایا
ماہ نور رانا
۔۔
شامِ تمہید کوئی چاند تھا کہ جس کی لو
ایسی بے باک تھی نقصان تک آجاتی تھی
بعض اوقات کوئی تہمت و تعزیر خدا
کسی اعلی کسی ذی شان تک آجاتی تھی
ایسی بھی جست لبِ فرش عِطا ہوتے تھی
بات عرفان کی نسیان تک آجاتی تھی
اپنے ہونے پہ رعایت نہیں ملتی تھی ہمیں
بات بڑھتی ہوئی تاوان تک آجاتی تھی
ماہ نور رانا
۔۔
وہ سفر آن پڑا ہے کہ تساہل تو بعید
سانس رکتی ہے اگر اذنِ قیام آتا ہے
سر کو شانوں سے الگ کر کہ بتا دینا کہ بس
کس لیے سنتی ہو ” آتا ہے غلام آتا ہے”
حذر اے شہرِ بے آواز و سماعت، تری سمت
حرفِ داؤد نہیں، میرا کلام آتا ہے
ماہ نور رانا
۔۔
ہم جب بھی شش جہات کا نقشہ بنائیں گے
یہ طے رہا کے آپ سے اچھا بنائیں گے
ہم رنج خور لوگ تو ایسے حریص ہیں
میت سے ماں کی نظم کا نطفہ بنائیں گے
وہ پوچھتے ہیں کیا کریں گے میرے رنج کا
ہم ہنس رہے ہیں شعر کا ذریعہ بنائیں گے
ماہ نور رانا
۔۔
ایک بھی زخم جو ملّاح کے سینے میں ہوا
تو یقینی ہے کہ سوراخ سفینے میں ہوا
یوں پلا صحنِ طرب میں میرے افکار کا طفل
جیسے اسلام نمویاب مدینے میں ہوا
ماہ نور رانا
۔۔
تخت۔ جنت پر جو محو۔ خواب ہے اس پر کوئی
جائے اور جا کر سبھی احوال۔ خلقت کھول دے
سرکشی کی ناؤ میں سوئے ہوؤں کی سمت اب
موج۔ استغراق لا، بحر۔ ندامت کھول دے
ماہ نور رانا
۔۔
وہ اعتراف ہنر ہی تھا حاسدین نے جب
ہمارے مصرع۔ ثانی پہ ابتسام کیا
نگار و نقش۔ دو عالم بنانے والے نے
پئے تباہی کیا جو بھی انتظام کیا
ماہ نور رانا
۔۔
دشت۔ میں سامان۔ استغراق کر سکتے ہیں ہم
لمحہ بھر میں آنکھ کو نمناک کر سکتے ہیں ہم
ایک رخش۔ منکری کی جنبش۔ مہمیز سے
ریزہ ریزہ لشکر۔ افلاک کر سکتے ہیں ہم
بے لباسی اولیں پوشاک ہوتی تھی ہمیں
جتنا چاہیں پیرہن بے باک۔۔۔ کر سکتے ہیں ہم !!
کہہ رہے ہیں حوض۔ کوثر پر بلا کر یک بہ یک
عمر بھر کے زہر کا تریاق کر سکتے ہیں ہم
بے نشاں رستوں پہ نقش۔ پا بنا کر آگئے
اور کیا تزئین۔ خشت و خاک کر سکتے ہیں ہم؟
ماہ نور رانا
۔۔
میاں دربار تو اک کیفیت ہے جس میں آ کر
پیمبر معجزہ اور سامری کرتب کرے گا
ماہ نور رانا
۔۔۔
کون مانے گا مرے دوست کہ میں تھا ہی نہیں
میں تو دیکھا بھی گیا اور پکارا بھی گیا
ماہ نور رانا
۔۔
نہیں کہ صرف حکایات۔ گل تک آئے گا
مرا کلام کمیں گاہ۔ دل تک آئے گا
اجالنے کو مری تیغ چل کے میرا عدو
کبھی تو میری صف۔ مشتعل تک آئے گا
ماہ نور رانا
۔۔
صبحِ شرحِ سکوت میں تیری مثال اور تھی
شامِ رموزِ گفت میں تیری مثال اور ہے
صدقے ترے وثوق کے ہم پر ہمارے لحن پر
تیرے جواب سے کھلا، طرزِ سوال اور ہے
اتنا دلیر بھی نہ جان، کچھ دل گرفتگاں کی مان
لوگوں کا رنج اور ہے، تیرا ملال اور ہے
ماہ نور رانا
۔۔
وہ صور پھونکنے کے روز کس طرف نکل گیا
اسے کہو کہ آئے اور اذان۔ انہدام دے
جو بد نصیب سیڑھیوں میں سو گئے ہیں شہہ نشیں
ترا بھلا ہو ان کو کچھ سوائے خواب۔ خام دے
یہ لوگ وہ ہیں جو دو ایک سیڑھیاں پھلانگ کر
خدائے لم یلد پہ چیخنے لگیں، "مقام دے!”
حضور آدمی کا پیٹ فلسفہ ہے, صرف پیٹ!
بشر کو رزق چاہیے رحیم دے یا رام دے
ماہ نور رانا
۔۔
قیدِ وحشت سے نکلنے کے لیے ہوتی ہے
چھت فقط کُود کے مرنے کے لیے ہوتی ہے
دن نکلتا ہے اسیروں کی تسلی کے لیے
شام زنجیر پرکھنے کے لیے ہوتی ہے
ماہ نور رانا
تبصرے دیکھیں یا پوسٹ کریں