ٹک ٹھہرنے دے تجھے شوخی تو کچھ ٹھہرایئے
پیکر نازک کو تیرے کیونکے بر میں لایئے
ساکن دیر و حرم دونوں تلاشی ہیں ترے
تو خدا جانے کہاں ہے کیونکے تجھ کو پایئے
دور ہی سے ہوش کھو دیتی ہے اس کی بوے خوش
آپ میں رہیے تو اس کے پاس بھی ٹک جایئے
ان دنوں رنگ اور کچھ ہے اس دل پرخون کا
حق میں میرے آپ ہی کچھ سوچ کر فرمایئے
جی ہی کھپ جاتا ہے طنز آمیز ایسے لطف سے
ہنس کے جب کہتا ہے سب میں آیئے جی آئیے
دل کے ویراں کرنے میں بیداد کی ہے تونے ہائے
خوش عمارت ایسے گھر کو اس طرح سے ڈھایئے
رات دن رخسار اس کے چت چڑھے رہتے ہیں میر
آفتاب و ماہ سے دل کب تلک بہلایئے
میر تقی میر