- Advertisement -

مدت تو وا ہوا ہی نہ یہ غنچہ وار دل

میر تقی میر کی ایک غزل

مدت تو وا ہوا ہی نہ یہ غنچہ وار دل
اب جو کھلا سو جیسے گل بے بہار دل

ہے غم میں یاد کس کو فراموش کار دل
اب آ بنی ہے جی پہ رہا درکنار دل

شوار ہے ثبات بہت ہجر یار میں
یاں چاہیے ہے دل سو کہاں میرے یار دل

وہ کون سی امید برآئی ہے عشق میں
رہتا ہے کس امید پہ امیدوار دل

ظالم بہت ضرور ہے ان بیکسوں کا پاس
ناچار اپنے رہتے ہیں جو مار مار دل

تم پر تو صاف میری کدورت کھلی ہے آج
مدت سے ہے ملال کے زیر غبار دل

مائل ادھر کے ہونے میں مجبور ہیں سبھی
کھنچتا ہے اس کی اور کو بے اختیار دل

حد ہے گی دلبری کی بھی اے غیرت چمن
ہو آدمی صنوبر اگر لاوے بار دل

داخل یہ اضطراب تنک آبیوں میں ہے
رکھتی نہیں ہے برق ہی کچھ بے قرار دل

کیا ہیں گرسنہ چشم دل اب کے یہ دلبراں
تسکین ان کی ہو نہ جو لیویں ہزار دل

جوں سیب ہیں ذقن کے چمن زار حسن میں
یوں باغ حسن میں بھی ہیں رنگیں انار دل

ہم سے جو عشق کشتہ جئیں تو عجب ہے میر
چھاتی ہے داغ ٹکڑے جگر کے فگار دل

میر تقی میر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
میر تقی میر کی ایک غزل