ایسی پاکیزہ وپُرنور ضیا اُس کی ہے
جس سے مہتاب بھی شرمائے حیا اُس کی ہے
وہ مرے تن میں مرے من میں سمائی ہوئی ہے
میری وحشت میں محبت میں ادا اُس کی ہے
لمس ہاتھوں کا ابھی تک مرے ہاتھوں میں ہے
میرے ہاتھوں میں یہ خوشبوئے حنا اُس کی ہے
اس محبت نے امر کر دیا ہے مجھ کو بھی
کون کہتا ہے محبت میں فنا اُس کی ہے
میں جو مرتا ہوں تو مرتا ہوں اُسی کی خاطر
اور زندہ ہوں تو اِس میں دعا اُس کی ہے
شاذ خاموش نہیں محو ہوں دھڑکن میں کہیں
دل دھڑکتا ہے تو لگتا ہے صدا اُس کی ہے
شجاع شاذ