اردو شاعریاردو غزلیاتقمر جلال آبادی

وعدۂ وصل کے ایفا سے پشیماں ہو کر

ایک اردو غزل از قمر جلال آبادی

وعدۂ وصل کے ایفا سے پشیماں ہو کر

وہ تصور میں بھی آتے ہیں تو پنہاں ہو کر

شوق دیدار شہیدوں کو ہے کون ان سے کہے

سیر کو جائیں سوئے گورِ غریباں ہو کر

فاتحہ پڑھ کے مری قبر سے قاتل جو اٹھا

خاک اڑ اڑ کے لپٹنے لگی ارماں ہو کر

میں شبِ وعدہ تصور میں انہیں لے آیا

در پہ بیٹھے ہی رہے غیر نگہباں ہو کر

شمع تربت پہ مری دیکھ کے بے مونس و یار

پھول تا صبح چڑھاتی رہی گریاں ہو کر

رات بھر ڈر ہی رہا صبح کے ہونے کا قمر

وصل کی رات کٹی ہے شبِ ہجراں ہو کر

قمر جلال آبادی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button