ہم سُنائیں تو کہانی اور ہے
یار لوگوں کی زبانی اور ہے
چارہ گر روتے ہیں تازہ زخم کو !
دل کی بیماری پُرانی اور ہے
جو کہا ہم نے ، وہ مضمون اور تھا
ترجماں کی ترجمانی اور ہے
ہے بساطِ دل لہو کی اِک بوند
چشمِ پُرخُوں کی روانی اور ہے
نامہ بر کو، کچھ بھی ہم پیغام دیں
داستاں اُس نے سُنانی اور ہے
آبِ زمزم، دوست لائے ہیں عبث !
ہم جو پیتے ہیں، وہ پانی اور ہے
سب قیامت قامتوں کو دیکھ لو !
کیا مِرے جاناں کا ثانی اور ہے
شاعری کرتی ہے اک دنیا فراز
پر تری سادہ بیانی اور ہے
احمد فراز