آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزاسلامی گوشہ

والد – جنت کا دروازہ

فاطمہ وہاب کا اردو کالم

والد – جنت کا دروازہ

میرے پاس الفاظ نہیں ہے جن سے ایک باپ کی محبت کو ناپا جائے۔
ماں کی محبت تو سب ہی کو نظر آتی ہے پر باپ کی محبت کبھی بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔
باپ ایک سائبان ہے جس کی وجہ سے ہم سب سکون کی زندگی گذار رہے ہیں۔

ماں کے پیروں تلے جنت ہے تو باپ جنت کا دروازہ ہے اور جنت میں دروازے کے بغیر داخلہ ناممکن ہے، اس لیے والد کی اہمیت کو جانیے اس سے پہلے کے بہت دیر ہوجائے۔

باپ کے بارے میں ان لوگوں سے پوچھا جائے جن کے والد حیات نہیں یا اگر ہیں بھی تو ان کے والدین میں علیحدگی ہوگئ ہے، ان سے پوچھا جائے کہ کیا باپ کے بغیر بھی کوئ زندگی ہے؟
کیا باپ بغیر کبھی سکون میسر آیا، ان کا جواب ضرور نفی میں ہوگا، کیونکہ باپ کہ بغیر زندگی کبھی بھی پرسکون نہیں رہتی۔ جن کے والد نہیں ہوتے ان کی زندگی میں کوئ نہ کوئ کمی رہ ہی جاتی ہے۔ اکثر اوقات ایسے بچے احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔

اللہ پاک نے والدین کا ذکر قرآن اور حدیث میں جابجا کیا ہے، ان کے ہر حکم کی اطاعت کا حکم دیا ہے سوائے اس حکم کے جس میں اللہ کی نافرمانی ہو۔

ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ؛
"حضرت جبرئیل علیہ السلام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ بددعا فرمائ کہ ‘ہلاک ہوجائے وہ شخص جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا اور ان کی خدمت حاصل کرکے جنت نہ حاصل کر سکا’ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں آمین کہا”۔
اس سے والدین کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ایک اور روایت کا مفہوم ہے کہ؛
ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میرا باپ میرا سارا مال خرچ کر دیتا ہے، آپ ﷺ نے ان کے والد کو بلوایا۔ جب والد کو معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے نے نبی اکرم ﷺ سے ان کی شکایت کی تو انھیں بہت رنج ہوا۔ راستے میں چلتے ہوئے انہوں نے دل میں کچھ اشعار کہے۔
جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ پہلے مجھے وہ اشعار سنائیے جو آپ نے راستے میں کہے ہیں. مخلص صحابی تھے، سمجھ گئے کہ وہ اشعار جو ابھی تک میرے کانوں نے بھی نہیں سنے، وہ بھی اللہ تعالی نے سن لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر بھی کردی ہے۔ انہوں نے وہ اشعار سنانے شروع کیے۔ خلاصہ کچھ یوں ہے: "میں نے تجھے بچپن میں غذا دی اور تمہاری ہر ذمہ داری اٹھائی، تمہارا سب کچھ میری کمائی سے تھا۔ جب کسی رات تم بیمار ہوجاتے تو میں بیداری میں رات گزارا دیتا۔ میرا دل تمہاری ہلاکت سے ڈرتا رہا، حالانکہ میں جانتا تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے۔ جب تو اس عمر کو پہنچ گیا تو پھر تم نے میرا بدلہ سخت روئی اور سخت گوئی سے دیا۔ جیسا کہ تم مجھ پر احسان و انعام کررہے ہو۔ کم از کم اتنا ہی حق مجھے دے دیتے جتنا ایک شریف پڑوسی دیتا ہے۔ کم از کم مجھے پڑوسی کا حق ہی دیا ہوتا……” جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اشعار سنے تو بیٹے سے فرمایا کہ "تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے”۔

والد تو بچوں کی ہر خواہش پوری کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں چاہے ان کے پاس خود کے لیے کچھ بھی نہ ہو۔ لیکن بچے یہ بات کبھی بھی نہیں سمجھتے۔
اگر کبھی والد نے ڈانٹ دیا تو اس میں بھی اپنے بچوں کی بہتری ہی دیکھتے ہیں۔ کوئ یہ کیوں چاہے گا کہ اس کے بچے آگ کی طرف جانا چاہے تو اسے جانے دیں، ضرور ان کو روکنے کے کیے کوئ اقدام لیا جائے گا۔ والد بھی اس لیے ہی ڈانٹتے ہیں تاکہ بچے کو کوئ نقصان نہ ہو۔
لیکن بچے ان کی ڈانٹ سن کر ان سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں، اور جب والد کا دن آتا ہے تو پر جوش طریقے سے کیک لے آتے، کیک کاٹتے اور ان کے لیے اسٹیٹس لگاتے ہیں۔ پر اپنا دل صاف نہیں کرتے۔

والد کی تعریف کی جائے تو تحریر طول پکڑ لے گی، اس لیے بس میں چند ایک سوال کرنا چاہتی ہوں۔۔۔

کیا والد کا دن منانے سے والد کی محبتوں کا حق ادا ہوجاتا ہے؟
کیا کیک کاٹنے سے ان کو خوشی ملتی ہے؟
کیا واٹس ایپ اور فیسبک پر اسٹیٹس ٹیگ کرنے سے محبت کا ثبوت مل جاتا ہے؟ چاہے حقیقی زندگی میں دو پل ان کے ساتھ نہ بیٹھے ہوں۔۔۔۔

اگر والد سے اتنی ہی محبت ہے نہ تو ان کے آرام کی فکر کریں۔ جو اتنے سالوں سے آپ کے لیے محنت کر رہے ہیں اب آپ کا فرض بنتا ہے کہ آپ ان کے ادھورے خواب مکمل کریں، ان کو سکون میسر کریں، ان کے ساتھ وقت گذاریں، ان کے ساتھ وہ باتیں شیئر کریں جن کی وجہ سے آپ کو حوصلہ ملا۔ ان کے لیے کثرت سے دعا کی جائے۔
"رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا۔”

آمین ثم آمین

عزیز تر مجھے رکھتا ہے وہ رگِ جاں سے
یہ بات سچ ہے میرا باپ کم نہیں ماں سے !​

وہ وہ ماں کے کہنے پہ کچھ رعب مجھ پر رکھتا ہے
یہی وجہ ہے مجھے چومتے جھجکتا ہے !
وہ آشنا میرے ہر کرب سے رہے ہر دم
جو کھل کے رو نہیں پاتا مگر سسکتا ہے !
جڑی ہے اس کی ہر اک ہاں فقط میری ہاں سے
یہ بات سچ ھے میرا باپ کم نہیں ماں سے !​

ہر ہر ایک درد وہ چپ چاپ خود پہ سہتا ہے
تمام عمر وہ اپنوں سے کٹ کے رہتا ہے !
وہ لوٹتا ہے کہیں رات دیر کو، دن بھر
وجود اس کا پسینہ میں ڈھل کر بہتا ہے !
گلے ہیں پھر بھی مجھے ایسے چاک گریبان سے
یہ بات سچ ھے میرا باپ کم نہیں ماں سے !​

پرانا سوٹ پہنتا ہے کم وہ کھاتا ہے
،،، مگر کھلونے میرے سب خرید کے لاتا ہے !
وہ مجھ کو سوئے ہوئے دیکھتا ہے جی بھر کے
نجانے سوچ کے کیا کیا وہ مسکراتا ہے !
میرے بغیر ہیں سب خواب اس کے ویران سے
یہ بات سچ ھے میرا باپ کم نہیں ماں سے !
(طاہر شہیر)

فاطمہ وہاب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button