حزیمت اب یہ بھی اٹھانا پڑے گی
در صنم پہ گردن جھکانا پڑے گی
سوے دیر دیکھو اجالا بہت ہے
اہل حرم، یہ خفت مٹانا پڑے گی
اندھیرے مٹا نہ سکا نور خورشید
شمع اک نئی اب جلانا پڑے گی
تجاہل عارفانہ، تغافل شاطرانہ
حد محبوب پرکوئی لگانا پڑے
زلف احمریں ، رخ پہ ہے چاند چمکا
بازی دل کی سب کو لگانا پڑے گی
جب کہ ہیں قرباں مرے دونوں عالم
دولت حسن انہیں بھی لٹانا پڑے گی
مبارزت طلب ہے یہ ساری دنیا
ریاضت عابد و زاہد، چھڑانا پڑے گی
سیّد محمد زاہد