ایک نظم جو لکھی نہیں جاسکتی
تم خاموش
خداخاموش
درودیوار خاموش
یہ بستی جو کبھی زمیں بوس ہوگئی
تب آثارِ قدیمہ کے ماہرین کسی بھی ذرّے سے ہماری محبت کا سراغ نہ پاسکیں گے
چلو، یہ کامیابی تو تمہارے حصے میں آئی
مجھے تم نے دکھا دیا
کہ قلب کے سناّٹے کیسے ہوتے ہیں
چیخیں جو کبھی باہر نہیں آ پاتیں
میں تمہاری ہی طرح
بے روح بے دل
زندگی کے شب وروز کھینچتی ہوں
بقا کی جنگ نے
مجھے خود سے اس قدر علیحدہ کردیا
کہ میری آنکھیں،میرے ہاتھ،میرے قدم
میرا ساراوجود
کہیں کسی سرد خانے میں ساکت پڑے ہیں
بتانے والوں نے تمہارے گُن مجھے ایسے بتائے
جیسے میرا تم سے کوئی تعارف نہ رہا ہو
تم بے باک بے لاک
کہیں کسی موضوع پہ بات کرتے ہو تو
مجھے باور کراتے ہو
دیکھو!
میری سفاّک بے باکی نے مجھے اس قدر شہرت عطا کردی ہے
کہ کبھی تمہاری بے بسی پہ میں جو خاموش رہ گیا تھا
وہ سب منوں مٹی میں دفن ہوگیا
تاریخ کاکوئی کیمرہ نہ تھا جو اس لمحے کو اپنی گرفت میں لے لیتا
کوئی تمہیں آواز دیتا رہا اور تم ویران رہے
یہ بہت ساراشور
جو تم نے اپنے ارد گردجمع کرلیا
تاکہ تم سن نہ سکو وہ شور
جوضمیر نام کی حماقت میں اٹھتاہے
اورآسمانوں پہ بیٹھا خدا
جو زندہ رہنے کی قلیل ضرورتوں میں زندہ رکھتا ہے
اس کی بارگاہ میں آتے آتے
دعائیں بھی اپنا رس کھودیتی ہیں
انجلاء ہمیش