دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے
ہمیں ایک مٹھو تحفے میں ملا جو کہ ایک ہفتے کا تھا۔ اس کا بہت خیال رکھا، اپنے ہاتھوں سے کھلایا اور پلایا یہاں تک کہ وہ بڑا ہوگیا اور ہم سب کے ساتھ بہت مانوس ہوگیا، کہیں بھی جاتے اسے ساتھ لیکر جاتے یہاں تک کہ کراچی سے اسلام آباد کے سفر تک وہ ساتھ رہا۔
اس کے ساتھ اتنا دل لگ گیا کہ اسے کہیں چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، اور اسے پنجرے میں قید نہیں کرتے تھے کیوں کہ ہمیں یقین ہوچلا تھا کہ اب یہ کہیں اڑ کر نہیں جائے گا۔
ایک دفعہ صبح کے وقت ابو اسے کھڑکی کے پاس لےکر کھڑے ہوگئے، اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے اڑ گیا، امی نے مجھے اور میری بہن کو نیند سے جگایا اور آکر بتایا کہ مٹھو اڑ گیا ہے جاؤ اور اسے ڈھونڈ کر لے آؤ۔
1 گھنٹہ ڈھونڈنے کے بعد بھی جب نہیں ملا تو ابو نے کہا اب یہ کسی پرندے کے ہاتھ لگ گیا ہوگا یا پھر کسی اور نے اسے قید کرلیا ہوگیا، کیونکہ پالتو پرندوں کو عادت نہیں ہوتی کھلی فضا میں اڑنے کی، جب تک ان کی عادت بنے وہ یا تو مرجاتے ہیں یا کوئ اور انہیں قید کرلیتا ہے۔
یہ سن میں کر رونا شروع ہوگئ، امی نے کہا جاؤ ایک دفعہ اور دیکھ کر آؤ، جس طرف پیڑ ہیں اس طرف جاؤ۔
جب وہاں پہنچے اور اسے ڈھونڈنا شروع کیا تو وہ ایک پیڑ پر بیٹھا ہوا تھا۔ پاس سے ایک آدمی گذر رہا تھا جس سے ہم نے مدد لینے کا سوچا، ان کو کہا کہ آپ ٹہنی کو ہلائیں گے تو وہ نیچے کی طرف آئے گا کیوں کہ یہ ابھی صحیح سے اڑ نہیں سکتا، جب انہوں نے ٹہنی ہلائی تو ہمارے کہنے کے مطابق وہ نیچے کی طرف اڑ کر دوسری طرف چلا گیا اور اتنی سی دیر میں ایک چیل نے اسے اپنے پنجوں میں پکڑ لیا، اسی وقت ابو آگئے اور چیل کو اڑا دیا اور مٹھو اس کے پنجوں سے نیچے زمین پر آگرا۔
جس طرح ایک پرندے کو بچپن سے قید کیا جائے اور وہ کہیں اڑ کر جائے تو زندہ نہیں رہ سکتا۔
اسی طرح اللہ پاک نے ہر انسان کو فطرت سلیم پر پیدا کیا ہے، اگر اس فطرت کو چھوڑ کر ہم طاغوت کی پیروی کرنے لگیں تو پریشانی اور مشکلات ہمارا مقدر بنیں گی۔
اس لیے دنیا کو مومن کا قید خانہ کہا گیا ہے کیونکہ اسے قید کے باہر کے مناظر بہت خوبصورت اور پرکشش نطر آتے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔
فاطمہ وہاب