- Advertisement -

سعادت حسن منٹو

فرحین چوہدری کی ایک اردو تحریر

سعادت حسن منٹو

سعادت حسن منٹو اردو ادب کاایک متنازعہ نام۔ کم از کم جب تک ایک جسم سے چسپا ں رہا۔جسم ساتھ چھوڑگیا تو نام امر ہو گیا۔عظیم تر کہلایا۔۔۔انسان ہمیشہ اُس فرد،واقعہ یا حالات کے خلاف ردِعمل ظاہر کرتا ہے۔جس سے کسی بھی طور متاثر ہونے کا خدشہ ہو۔ سعادت حسن کو اُس کے عہد نے کسی حد تک قبول کیا لیکن منٹو کے پیچھے ایک زمانہ لٹھ لے کر پڑ گیا۔

” منٹو فحش نگار ہے۔۔ منٹو اخلاق بگاڑ رہا ہے۔۔۔۔۔ منٹو کی تحریروں پر پابندی لگائی جائے“

منٹو ان تما م آوازوں کے درمیان اپنی آواز کو کبھی افسانوں،کبھی ڈراموں کبھی فلموں کی صورت لئے پھرتا رہا ۔اُس نے مقدمے جھلیے،غربت سہی،بدنامی اور ذلت کا بار اُٹھا یا لیکن اُس کے قلم نے وہی لکھا جو اُس نے دیکھا اور محسوس کیا،اور بہت لکھا۔اُ س کے جو افسانے جیتے جی ذلت کا باعث بنے وہی بعد میں اُردو ادب کے ماتھے کا جھومر کہلائے۔

کیا عجب دستور ہے انسانی بستیوں کا، ؟ زندگی میں ہم سچ بولے والوں کو سولی چڑھاتے ہیں بعد میں سرکاری و غیر سرکاری تقریبات مناتے ہیں۔شاید اپنی تشہیر و پوجا کے لئے۔

”آؤ دیکھو سنو ہم کتنے عظیم ہیں ہمارا احسان ہے کہ ہم بعد از مرگ عزت بخشتے ہیں۔خود کو ٹیگ کر کے دوسروں کے کندھوں پر چڑھ کر اپنا قد بلند کرتے ہیں“

یہی کچھ منافق اور ریاء کار معاشرے نے منٹو کے ساتھ کیا ۔عدالتوں میں مقدمے لڑنے اور فیصلے صادر کرنے والے وکلاء اور ججوں کے کشمیری مسلم گھرانے کا یہ عظیم لکھاری تمام عمر اپنے خلاف عدالتی اور غیر عدالتی مقدمات میں اپنی صفائی پیش کرتا رہا۔ ساتھ ساتھ اُس کا قلم بھی چلتا رہا۔ لدھیانہ ڈسٹرکٹ والوں نے بھلا کب سوچا ہو گا کہ ۲۱۹۱ میں پیدا ہونے والا ایک بچہ، سمرالہ کو آفاقی شہرت عطا کر جائے گا۔ ڈراموں کے سات،کہانیوں اور افسانوں کے بائیس، مضامین کے ۳مجموعے،ایک عدد ناول اور بمبئی میں بننے والی کچھ یاد گار فلمیں سمرالہ والوں کا قابلِ فخر اثاثہ بن جائے گئیں۔

وہی بچہ بڑا ہو کر ہندوستان اور پاکستان میں تین تین مقدمات فحش نگاری کے الزام میں بھگتنے لگا۔ عظیم لوگ،عظیم فنکار،عجیب و غریب حالات سے نہ گزریں تو شاید خام رہ جاتے ہیں ۔یہی قانونِ فطرت ہے۔ ریس کا گھوڑا کسی رقم کے لالچ میں نہیں بھا گتا، اُس کی تیز رفتاری اُس درد کی شدت کا نتیجہ ہوتی ہے جو وہ اپنے سوار کے ہاتھوں سہتا ہے۔ یہ درد اُسے تیز بھاگنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہی درد اُس کی جیت بن جاتا ہے۔

منٹو بھی زندگی کے ہاتھوں درد سہتے سہتے بہت تیز بھاگا، بے تحاشہ بھاگا۔۳۴ چکر زندگی کے ریس گراونڈ میں لگائے اور اپنی جیت کو، اپنے نام کو امر کر گیا۔

منٹو کی زندگی اور کام پر اتنا کچھ لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے کہ میرا یہ مضمون شاید سمند ر میں قطرہ ہو کیونکہ میں نہ تو نقاد ہوں نا مؤر خ۔۔۔ صرف ایک لکھاری ہوں او ر بطور منٹو کی قاری کے اُسے خراج تحسین پیش کرسکتی ہو ں۔۔ اُس کے افسانوں میں بسی بُو کو سونگھ سکتی ہوں۔۔۔ ”ٹوبہ ٹیک سنگھ“کے کرداروں کی بے بسی اور اُن کے خاموش احتجاج کو سمجھ سکتی ہو ں۔

”ٹھنڈا گوشت“کے اندر چھپی اس حرارت، اس آنچ سے میرا احساس جلتا ہے جو ایک بے ضمیر کے ضمیر کو جگا دے۔ جو مرتے ہوئے قاتل کو یہ بتا دے کہ زخم تلوار کا ہو یا کرپان کا۔۔۔۔ا للہ اکبر کا نعرہ لگا کر، واہ گورو کی کرپا۔۔۔ یا بھگوا ن کی جے کہہ کر اگر زخم لگایا جائے تو انسانی جسم سے خون ایک ہی طرح کا نکلتا ہے۔۔۔ لاشہ ایک ہی طرح کے درد سے تڑپتا ہے۔

لہو ایشور سنگھ کی زبان تک پہنچ گیا جب اس نے ذائقہ چکھا تو اس کے بدن پر جھرجھری سی ڈور گئی

”اور میں۔۔۔۔میں بھینی چھ آدمیوں کو قتل کر چکا ہوں اسی کرپان سے“

ٹوبہ ٹیک سنگھ کا بشن سنگھ جو کسی سیاسی پارٹی کا کارکن ہے نہ کسی مذہبی گروہ کا کارئندہ اور نہ ہی ہوش و خرد کی دینا کا باسی۔اُ س کا احتجاج اُس دور کا منظر نامہ کچھ اِس طرح دکھاتا ہے کہ ہر انسان ایک بار دھل جاتا ہے۔افسانے کی چند آخری سطریں

”سورج نکلے سے پہلے ساکت و صامت بشن سنگھ کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ بلند ہوئی ادھر اُدھر کے کئی افسر دوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ آدمی جو پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہا اوندھے منہ لیٹا تھا۔ ادھر خادر تاروں کے پیچھے ہندوستان تھا اور ادھر ویسی ہی تاروں کے پیچھے پاکستان۔ درمیان میں زمین کے اُس ٹکڑے پر جس کا کوئی نام نہیں تھا، ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا“

میٹرک میں تین بار اردو میں فیل ہونے والا سعادت حسن کتابیں پڑھنے کی خاطر پیسے چوری کرتے کرتے آخر ایک دن امرتسر ریلوے اسٹیشن کے ایک بُک سٹال سے انگلش ناول چوری کرتے پکڑاگیا۔ یہ چھوٹی چھوٹی چوریاں کیسے کیسے افسانوں کا شاخسانہ بنیں گئی۔ کون جانتا تھا کہ وکٹر ہیوگو،آسکر وائلڈ،چیخوف، گورکی کے علاوہ کئی دوسرے مغربی اور روسی ادیبوں کے تراجم کرتے کرتے سعادت حسن۔۔۔ منٹو کے قالب میں ڈھل جائے گا؟

جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کے ظلم پر پہلی کہانی”تماشہ“ نے منٹو کو اعتماد بخشا۔ اُس نے اپنی ذہنی اُلجھنوں، سوچوں اور معاشرے کے بدبودار زخموں کو اپنے قلم کی نوک سے کریدنا شروع کیا۔ یہ کرید گہری ہوتی چلی گئی قلم نشتر بن گیا درد کی لہریں پورے بدن میں پھیل گئیں لوگ تلملا اُٹھے۔” ٹھنڈا گوشت“ ”کھول دو“”کالی شلوار“اور ”دھواں“ نے سب کی آنکھوں میں دھواں بھر دیا۔ منٹو سلگتا رہا۔۔ مقدمے جھیلتا رہا اور اُس کا قلم نشتر زنی کرتا رہا وہ جج نہیں بنا، اپنی کرداروں پر کوئی لیبل نہیں چسپاں کیا۔ وہ انسانی فطرت، انسانی نفسیات،عمل رد عمل،خاص طور پر گرے پڑے کرداروں کے حوالے سے ہمارے سامنے لاتا رہا۔ اُس کے کاٹ دار نوکیلے جملے روتے روتے ہنسا دیتے ہیں، ہنستے ہنستے رلا دیتے ہیں۔ دوغلا سماج،سیاست دان،مذہبی جنونی سب ہی اُس کے قلم کی زد میں رہے۔ منافقت کے خلاف وہ بولتا رہا ، وہ لکھتا رہا۔ڈرامے اور فلمیں بھی لکھیں لیکن مختصر افسانے کو ینا روپ دیا۔ مختصر افسانہ دیکھنے کو آسان لیکن لکھنے کو بے حد مشکل ہے۔ جس میں نہ تاریخیں ہیں نہ کلیئے ہیں یہ تو کسی کردار، کسی واقعہ کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ قاری کو ایک روزن سے پوری دنیا نظر آجائے۔ یہ لکھاری کا کمال ہے کہ وہ ایک آئینے میں کتنی کامیابی کے ساتھ کتنے عکس دکھاسکتا ہے اور منٹو کے افسانوں نے نہ صرف آئینہ بن کر آئینہ دکھایا بلکہ پسِ آئینہ بھی بہت کچھ دکھا دیا۔

منٹو نجانے کس طرح اور کیسے علی گڑھ یونیورسٹی تک پہنچ ہی گیا۔ وہیں دوسرا افسانہ ”انقلاب پسند“ ۵۳۹۱ میں یونیورسٹی میگزین میں چھپا۔ انڈین پروگریسوس رائٹرز ایسوسی ایشن کے ساتھ منسلک ہونے کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا۔ بمئبی میں ”مصور“کا ایڈیٹر رہا ۔ فلمیں دنیا کی چمک دمک کے پیچے چھپے اندھیرے نے منٹو کے کیی زندہ و جاوید افسانوں کو جنم دیا۔ ایشوک کمار کے ساتھ گہرا دوستانہ تھا۔ لیکن حسد اور گرو بندی کی سیاست نے منٹو کی حساس طبیعت پر گہرا اثر ڈالا۔ تقسیم کے مسائل،قتل و غارت اور انسان کے شیطانی رویے منٹو کو پریشان کرنے لگے۔

۸۴۹۱ء میں پاکستان آگیا۔ کلیم کے نام پر یہاں لوٹ مار مچی ہوئی تھی منٹو الگ تھلگ رہا۔ نتیجہ َ ؎مالی مشکلات اور متلون مزاجی نے دھیرے دھیرے منٹو کو الکوحل کا بہت زیادہ عادی بنا دیا۔ وہ ہندوستان میں گزرے اچھے برے دنوں کی یاد سے باہر نہ آسکا نئی زمین پر قدم جماتے جماتے اُس کا جسم تھکنے لگا۔ دل و دماغ کی تازگی پژمردگی میں ڈھلنے لگی۔ پاکستان سے اُس کا لگاؤ بھی اٹل تھا سو وہ یہیں جم کر لکھتا رہا، کبھی کمانے کو،کبھی رُلانے کو،کبھی خود کو کبھی زمانے کو۔

عوام کی پذیرائی کے باوجود کچھ تنگ نظر افراد کی وجہ سے مقدمات میں الجھنا پڑا۔ ایڈیٹرز نے چھاپنا بند کردیا پبلیشر نظریں چرانے لگے۔اخبار”مغربی پاکستان“ میں منٹو کا کالم ”چشم روزن“ بند کروادیاگیا۔۔۔”روزنامہ آفاق“ میں چھپنے والے کچھ خاکے کچھ مشاہیر کو ناراض کر گئے سو وہ بھی بند ہوگئے۔ جو بعد میں ”گنجے فرشتے“کے نام سے ایک مجمو عہ شکل میں آئے۔ ان خاکوں کے حوالے سے اپنے ایک مقدمے کے دوران منٹو نے کہا تھا ”میرے پاس ایسا کوئی کیمرا نہیں جس کے ذریعے میں حشر کاشمیری کے چہرے پر موجود چیچک کے نشان مٹا سکوں یا اُس کی لچھے دار گفتگو سے ٖفحاشی نکال سکوں“۔۔۔۔۔۔ایک اور مقدمے کے دوران کہا ”ایک لکھاری تب ہی قلم اُٹھا تا ہے جب اُس کا احساس زخمی ہوتا ہے“

منٹو نہ تو درباری لکھاری بن کر،عہدوں اور مراعات کا لالچی تھا اور نہ ہی ادھار لئے تخلیقی سُوتے خشک ہونے پر تنقید نگار بن کر، اہم افراد کی تعریفوں کے پل باندھ کر پار چڑھنے کا شوقین تھا۔ اُسے کسی ازم سے لگاؤ تھا نہ لاگ وہ تو ایک جراح تھا جس کا نشتر ہر پھوڑے، ہر ناسور کے آپریشن کے لئے بے قرار رہتا تھا۔ یہ تمام جینوئن تخلیق کاروں کا المیہ ہوتا ہے کہ جیتے جی اُنھیں مار دیا جاتا ہے اور مارنے کے بعد اُن کے ناموں کے ساتھ جڑ کر اپنے مردوں میں جان ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تنگ نظر سماجی ٹھیکے داروں اور حاسدوں کی نفرت نے منٹو کو اندر سے توڑ دیا ۔ وہ اس حد تک ٹوتا کہ اُس کی کرچیاں اُس کی تحریروں میں جا بجا بکھر گئیں، سب کو لہو لہان کرنے لگیں۔ وہ ہر شے سے بے نیاز، ہر نصحیت اور تنقید سے بے پر واہ مصروف کار رہا۔ YMCA ہال لاہور میں چراغ حسن حسرت کا ایک خاکہ پڑھتے ہوئے اُسے باقاعدہ ہال سے باہر چلے جانے کو کہاگیا۔ وہ اڑ گیا آخر اُس کی بیگم صفیہ اُسے کسی طرح باہر لے گئی۔ رویوں اور شراب کی تلخی مل کر دوآتشہ ہوتی گئی۔ مالی مسائل کے باعث وہ ہر طرح کی تحریر،ہر کسی کے کہنے پر لکھنے کو تیار تھا۔ ایڈوانس لیتا اُسی وقت بیٹھ کے لکھتا اور غائب ہوجاتا۔ یہ منٹو اُس منٹو سے قطعی مختلف تھا جو ۰۵۹۱ء میں گورئمنٹ کالج ہال میں چمک دار آنکھوں، شاداب چہرے اور نفیس لباس میں ملبوس ”میں کہانی کیسے لکھتا ہوں“ پڑھنے آیا تھا ۔پھر حلقہ ارباب ِ ذوق میں اپنا آخری افسانہ ”ٹوبہ ٹیک سنگھ“ پڑھنے والا منٹو زرد چہرے،سرمئی بالوں،اور میلے اورکوٹ کے ساتھ اپنا سایہ لگ رہا تھا۔ وہ چڑ چڑا ہو چکا تھا۔ شگفتہ کاٹ دار جملوں کی جگہ وہ تنقید کرنے والوں کو خوب سنا دیتا یہاں تک کہ اُن دوستوں کو بھی ناراض کر بیٹھا جن سے وہ مالی امداد لیتا تھا۔ حد درجہ حساسیت نے اُسے عظیم لکھاری تو بنا دیا لیکن ایک نازک مزاج انسان کو لے ڈوبی۔

وہ تقسیم کے دکھ سے باہر نہ آسکا، خون کی ہولی کسی آسیب کی طرح اُس کا پیچھا کرتی رہی۔ مظلوم اور ظالم دونوں ہی اُس کے نزدیک ایک بہت بڑی شطرنج کی بساط کے مہرے تھے۔ سو وہ انسانی سطح پر ان سب کی پیروی کرتا رہا ۔ انسانیت کی تذلیل کا کفارہ ادا کرتا رہا ۔ اُس نے صرف کردار تخلیق کئے، فیصلہ قاری پر چھوڑ دیا۔ منٹو چونکہ کرداروں اور واقعات کو نفسیاتی سطح پر برتتا تھا، اس لئے اُس دور کے حوالے سے تھوڑا شدت کی جانب مائل ہوگیا۔ وہ دور حقیقت پسندی کا دور تھا۔ اردو افسانے کا کینوس بھی فرد سے سماج تک پھیل چکا تھا۔ رشید جہاں کا افسانوی مجموعہ ”عورت“ اور احمد علی”ہماری گلی“ چھپ چکے تھے۔ ”انگارے“اور”شعلے“ کے افسانے ہندوستا ن کی سماجی، سیاسی، و مذہبی زندگی کے عجیب و غریب پہلوؤں کو بے نقاب کر رہے تھے۔ سگمنئڈ فرائڈ سے لکھاری بہت متاثر تھے۔ منٹو پر چونکہ روسی اور مغربی تراجم نے بھی اثر ڈالا تھا اس لئے اُس کو ڈی ایچ لارنس کا مشرقی پرتو بھی کہا جاتا ہے۔ ہم جنسی کے موضوع پر منٹو اور عصمت چغتائی نے لکھا۔ ۵۴۹۱ء کے حیدر آباد کنونشن میں جنسی اظہار کے خلاف قرارداد پاس کی گئی۔ ترقی پسند مصنفین نے منٹو،عصمت چغتائی۔قراۃالعین حیدر اور محمد حسن عسکری کو رجعت پسند قرار دے دیا گیا۔ ”لذت سنگ“میں منٹو کے وہ افسانے یکجا ہیں۔ جن پر زیر دفعہ۲۹۲ مقدمات درج ہوئے۔لیکن منٹو جیسے جنس نگار (اگر وہ جنس نگار ہے تو) کے ہاں غلاظت میں لتھڑے جنس زدہ کردار نظر آتے ہیں، لیکن انہی کرداروں میں سے ایسے کردار بھی ابھرتے ہیں جو ضمیر کے تازیانے کی مار نہیں سہ سکتے اور خود ساختہ خداؤں کو کم تر انسان ثابت کر دیتے ہیں ۔منٹو نے جنسی جذبات کوبیان تو کیا ہے لیکن ہیجان خیزی سے دور رکھا ہے۔ یہاں تک کہ وہ عورت کی تضحیک کے خلاف لکھتا رہا۔ طوائف میں انسانیت اور ممتا تلاش کرتا رہا۔اُ س نے جنسیت سے مغلوب ہو کر کچھ تحریر نہیں کیا۔ محمد حسن عسکری لکھتے ہیں ۔”‘گندی سے گندی بات اچھا ادب بن سکتی ہے مگر جنسیت سے مغلوب ہوکر بڑا ادب نہیں پیدا کیا جا سکتا“

منٹو نے بہت سارے تجربات ایک ساتھ شروع کردے تھے ۔اُس کے موضوعات اور سوالات قبل از وقت تھے۔۔۔ وہ نابالغ معاشرے کو بالغ سوالات پیش کر رہا تھا۔ لوگ بو کھلا گئے منٹو کا کینوس محدود رہ گیا ۔وہ خود لکھتا ہے

”عشق و محبت کے متعلق سوچتا ہوں تو صرف شہوانیت ہی نظر آتی ہے عورت کو شہوت سے الگ کر کے میں یہ دیکھتا ہو ں کہ وہ پتھرکی ایک مورت رہ جاتی ہے مگر یہ بات ٹھیک نہیں۔ میں جانتا ہوں، جاننا چاہتا ہوں کہ پھر آخر کیا ہے؟ کیا ہونا چاہے؟ لیکن میں عورتوں کے بارے میں کچھ بھی تو وثوق سے نہیں کہے سکتا۔ عورت کا وہ تصور جو ہم اپنے ذہن میں قائم کرتے ہیں وہ ٹھیک نہیں ہو سکتا (منٹو کے خطوط۔۔۔ مرتبہ احمد ندیم قاسمی)“

منٹو اردو ادب کا عظیم افسانہ نگار، اپنی تحریروں سے اتنا مطمئن نہیں تھا۔ وہ بس لکھتا گیا جو سوچتا تھا، سمجھتا تھا، لکھتا جاتا تھا۔بلا تکلف!۔

موضوعاتی تنوع کے باعث منٹو کے ہاں بمبئی کی شہری زندگی کے متعلق ”موزیل“ ”بابوگوپی ناتھ“ چکلے سے متعلق ”‘کالی شلوار“ تحریک آزادی سے متعلق ”نیا قانون“ تقسیم کے بارے ”کھول دو“ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ اور سماجیات سے متعلق ”ٹھنڈا گوشت“ شہکار ہیں ۔ باقی متوسط اندز کے اور زیادہ تر گھریلو افسانے ہیں۔ ہاں البتہ ”سرمہ“ اور ”مسواک“ چونکانے بلکہ کچھ طبقات کو ناراض کرنے والی تحریریں ہیں جنہیں قاری نے فوری طور پر رد کر دیا۔

لیکن منٹو اپنے انداز سے لوگوں کو چونکاتا رہا۔ اُس ٖفضا میں مٹو کے لئے ڈھیروں مسائل کھڑے ہوگئے یا شاید ہر مزاحمتی، سوشل ٹیبوز اور سماجی ناہمواریوں کے خلاف کام کرنے والا لکھاری قابل تعزیر ہی قرار دیا جاتا ہے۔لیکن آنے والا دور کچھ اور ہی فیصلہ سنانے کی تیاری کر رہا ہو تا ہے۔ منٹو جیسے ”فحش نگار“ کی تخلیقی صلاحیتو ں کے اعتراف کے طور ۸۱ جنوری ۵۰۰۲ کو منٹو کی پچاسویں برسی کے موقع پر پاکستان پوسٹل کی جانب سے ٹکٹ جاری کیا گیا۔ جس پر منٹو کی تصویر حیرت سے یہ سب تماشہ دیکھ رہی تھی۔ آخری دنوں میں منٹو کی تصویروں میں اداسی کی جھلک موجود ہے۔ مگرذہین آنکھوں کی چمک لپک برقرار ہے۔ وہ اخلاق کے نام نہاد ریا ء کار ٹھیکے داروں سے کہتا ہے

”میرے خلاف تم لوگ چاہے بدترین کاروائی بھی کر لو۔ مجھے پر واء نہیں میں اپنے آپ کے لئے لکھتا رہو ں گا تمھارے لئے نہیں“

سیاست کے گندے ہتھکنڈوں کواُس کی نگاہ دوررس نے بہت گہرائی تک جان لیا تھا۔ ”انکل سام کے نام تیسرا خط“ میں لکھتا ہے”امریکہ کے کوٹ بہترین ہیں۔ اُن کے بغیر ہمارا لنڈا بازار ویران لگتا ہے۔ آپ ہمیں پتلونیں کیوں نہیں بیھجتے؟ شاید ہندوستان روانہ کر دیتے ہیں اچھی حکمت ِ عملی ہے ہمیں جیکٹیں، بغیرپتلونوں کے جب جنگ ہو گی کبھی آپ کی جیکٹوں اور پتلونوں کے باعث ہوگی اور دونوں آپس میں لڑے گے آپ ہی کے فراہم کردہ ہتھیاروں کے ذریعے“

منٹو کا قلم اور زبان کسی دباؤ کسی خوف کے بغیر ہر موضوع پر لکھتا اور انسانیت کا پر چار کرتا رہا۔ اپنی باغیانہ فطرت کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی اُسے۔ شاید تپتی ریت پر چلنا اُس نے خود ہی چن لیا تھا۔ جب بھرے مجمعے سے ایک مداری کے کہنے پر جلتے کوئلوں پر چلنے کے لئے وہ ہی ایک سامنے آیا تھا سو وہ ہی ایک، آخری سانس تک تپتے کوئلوں پر چلتا رہا اردو ادب میں۔ لکھتا ہے ”اگر میری کہانیاں فحش ہیں تو تمھارا معاشرہ فحش اور گندا ہے میری کہانیاں سچ سامنے لاتی ہیں“

منٹو نے کیا نہیں سہا؟۔۔۔ مالی وسائل،بدنامیاں،ذہنی کرب،مقدمات، الزامات۔۔۔۔۔بمبئی میں تو مسلمان کا ساتھ دینے کا الزام لگا۔ کیمونزم کا لیبل لگا دیا گیا جس سے اُسے کوئی سرو کار نہ تھا۔ پرانے دوستوں کی نفرت وہ سہ نہ پایا پاکستا ن آگیا جہاں منافقوں کے گروہوں نے اُس پر کیچر اُچھالنا شروع کردیا۔ یہ کرب اُسے گھن کی طرح چاٹنے لگا۔ سستی اور بہت زیادہ شراب نے اُس کی صحت خراب کردی۔ اپنے خاکے میں اپنے بارے میں لکھتا ہے ”اے خدا اُٹھا لے اب اسے ۔یہ خوشبووں سے پرے بھاگتا اور بدبوؤں میں رہتا ہے یہ بہتے پانیوں سے دورغلاظت میں بہتا رہتا ہے۔ یہ شیطانی چہروں کی غلاظت نرمی سے دھو کر اُن کے اصل خدو خال سامنے لانا چاہتا ہے “

منٹو بیک وقت ہندوستان اور پاکستان میں جی رہا تھا۔ ہندوستان سے اُسے نام و مقام ملا اُس نے وہا ں کے اردوادب کوبہت کچھ دیا لیکن ناکردہ گناہوں کی پوٹلی اُٹھائے سر جھکائے جب اُس نے سرحد پار کی تو وہ خود بھی تقسیم ہو چکا تھا۔ صابر، خاموش،سادہ سعادت حسن۔۔۔۔۔۔۔ بپھرا ہوا،باغی غصیلا،ذہین منٹو۔

اپنے خاکے میں لکھتا ہے۔

”ہم اکھٹے پیدا ہوئے تھے اور شاید مریں بھی اکھٹے۔ لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سعادت حسن مرجائے اور منٹو نہ مرے۔ یہ خیال مجھے پریشان کرتا ہے کیونکہ میں نے خلوص دل سے کوشش کی ہے کہ ہماری دوستی قائم رہے“

لیکن یہاں منٹو فیل ہوگیا اپنے میٹرک کے امتحان کی طر ح، وہ دور بہت دور اندر تک دو حصوں میں بٹ گیا اور آخرٹوٹ گیا۔ جانے سے کچھ عرصہ پہلے صفیہ کی گو میں سر رکھے اُس نے بے حد کرب کے ساتھ کہا تھا ”صفیہ اب یہ ذلت ختم ہوجانی چاہے“ اُس دور اندیش باریک بین کو شاید اندازاہ نہ ہو سکا کہ مستقبل نے اُس کے لئے عزت کا کتنا بلند مینار تعمیر کر رکھا ہے۔

فرحین چوہدری

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
منزّہ سیّد کی ایک اردو غزل