اردو غزلیاتباقی صدیقیشعر و شاعری

ہم سخن ہے نہ ہم نوا کوئی

باقی صدیقی کی ایک اردو غزل

ہم سخن ہے نہ ہم نوا کوئی
کس توقع پہ دے صدا کوئی

اب تصور بھی ساتھ دے نہ سکے
دور اتنا نکل گیا کوئی

منزلوں سے بھی بڑھ گئے آگے
دو قدم ساتھ جب چلا کوئی

زندگی راستہ ہے یا منزل
چل دیا سوچتا ہوا کوئی

کس توقع پہ آرزو کی تھی
کام آیا نہ آسرا کوئی

آس ٹوٹی کچھ اسطرح باقیؔ
جیسے پردہ سا اٹھ گیا کوئی

باقی صدیقی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button