ہم سخن ہے نہ ہم نوا کوئی
کس توقع پہ دے صدا کوئی
اب تصور بھی ساتھ دے نہ سکے
دور اتنا نکل گیا کوئی
منزلوں سے بھی بڑھ گئے آگے
دو قدم ساتھ جب چلا کوئی
زندگی راستہ ہے یا منزل
چل دیا سوچتا ہوا کوئی
کس توقع پہ آرزو کی تھی
کام آیا نہ آسرا کوئی
آس ٹوٹی کچھ اسطرح باقیؔ
جیسے پردہ سا اٹھ گیا کوئی
باقی صدیقی