آپ کا سلاماردو شاعریاردو غزلیاتحافظؔ زین العٰابدین

جو رہ گئے ہیں وہ سارے نقاب اُتریں گے

حافظؔ زین العٰابدین کی ایک اردو غزل

جو رہ گئے ہیں وہ سارے نقاب اُتریں گے
اور اُن کے ساتھ حیا اور حجاب اُتریں گے

مجھے پتا ہے کوئ معجزہ نہیں ہو گا
نہ میری آنکھ لگے گی نہ خواب اُتریں گے

کہاں سے ڈھونڈ کے لاتے سکون کی گھڑیاں
جب آسمان سے ہر سُو عذاب اُتریں گے

جو سوچنا بھی نہیں تھا وہ دیکھتے ہیں ابھی
نجانے کب یہ نظر کے سَراب اُتریں گے

طلوعِ سحر اُداسی ہے تیری آنکھوں میں
جھکا نظر کہ ترے آفتاب اُتریں گے

 

حافظؔ زین العٰابدین

حافظ زین العابدین

حافظؔ زین العٰابدین ۔ جائے پیدائش ۔ قصور، پنجاب نو سال کی عمر میں حفظِ قرآن کرنے کے بعد اپنی دنیاوی تعلیم کا آغاز کیا ۔ پنجاب کالج قصور سے انٹر کے بعد اب فیملی بزنس سنبھال رہا ہوں۔۔۔ شاعری کا آغاز آٹھ برس قبل کیا ۔۔۔ پہلا شعری مجموعہ اشاعت کے مراحل میں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button