مرے لب پہ کوئی گلہ نہیں میں خموش ہوں مجھے رہنے دو
جسے چاہا تھا وہ ملا نہیں میں خموش ہوں مجھے رہنے دو
وہ سوال اس کا عجیب تھا یہ جواب میرا عجیب ہے
یہاں چاہتوں کا صلہ نہیں میں خموش ہوں مجھے رہنے دو
مری زندگی کوئی آس ہے میں وہ باغ ہو ں جو اداس ہے
کوئی پھول مجھ میں کھلا نہیں میں خموش ہوں مجھے رہنے دو
مری بے رخی پہ نہ جاؤ تم مرے زخم زخم میں خار ہیں
سو گلے میں تم سے ملا نہیں میں خموش ہوں مجھے رہنے دو
مرے شاذؔ اے مرے چارہ گر ترے دستِ چارہ گی سے بھی
کوئی زخم ہے جو چِھلا نہیں میں خموش ہوں مجھ رہنے دو
شجاع شاذ