رسمِ جفا کامیاب ، دیکھئیے ، کب تک رہے
حُبِ وطن، مستِ خواب، دیکھئیے ، کب تک رہے
دل پہ رہا مدتوں غلبۂ یاس و ہراس
قبضۂ خرم و حجاب، دیکھئیے ، کب تک رہے
تابہ کجا ہوں دراز سلسلہ ہائے فریب
ضبط کی، لوگوں میں تاب، دیکھئیے ، کب تک رہے
پردۂ اصلاح میں کوششِ تخریب کا
خلقِ خدا پر عذاب، دیکھئیے ، کب تک رہے
نام سے قانون کے ، ہوتے ہیں کیا کیا ستم
جبر، بہ زیرِ انقلاب، دیکھئیے ، کب تک رہے
دولتِ ہندوستان قبضۂ اغیار میں
بے عدد و بے حساب، دیکھئیے ، کب تک رہے
ہے تو کچھ اُکھڑا ہوا بزمِ حریفاں کا رنگ
اب یہ شراب و کباب، دیکھئیے ، کب تک رہے
حسرتِ آزاد پر جورِ غلامانِ وقت
از رہِ بُغض و عناد، دیکھئیے ، کب تک رہے
حسرت موہانی