آپ کا سلاماردو شاعریاردو نظمگلناز کوثر

تجھے آخری بار جب میں نے دیکھا

گلناز کوثر کی ایک اردو نظم

تجھے آخری بار جب میں نے دیکھا

تو حیرت زدہ شام کی زرد کرنیں

کسی گمشدہ روشنی والے لمحے کو

پلٹا کے لانے کی دُھن میں

اندھیری گُپھا کو

بڑھی جا رہی تھیں

المناک پیڑوں کے سائے

سمٹ بھی چکے تھے

سبھی سلسلے، رسم وعدہ و رخصت

نمٹ بھی چکے تھے …

تجھے آخری بار جب میں نے دیکھا

تو لہرا کے اُٹھتے تھے گمنام جھونکے

بہت اُلجھی شاخوں پہ رکھا ہوا

بوجھ جھڑنے لگا تھا

کسی شوق رفتہ، کسی رنج تازہ کا

اُس شام کے سانولے، سرد چہرے پہ

کوئی نشاں تک نہیں تھا

وہ لمحہ تھا جب

اُس گراں بار، دیرینہ خواہش کا دل میں

گُماں تک نہیں تھا …

پھسلتی نگاہوں میں بے تابیوں کا

دھواں تک نہیں تھا

تجھے آخری بار جب میں نے دیکھا

تو معمول کی ایک ساعت تھی

پر یہ ابھی تک کہیں ان زمانوں

کی آغوش میں جھولتی ہے

گلناز کوثر

گلناز کوثر

اردو نظم میں ایک اور نام گلناز کوثر کا بھی ہے جنہوں نے نظم کے ذریعے فطرت اور انسان کے باطن کو ہم آہنگ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ گلناز کوثر کا تعلق لاہور سے ہے تاہم پچھلے کچھ برس سے وہ برطانیہ میں مقیم ہیں، انہوں نے اردو اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنے کے ساتھ ساتھ ایل ایل بی کی تعلیم بھی حاصل کی، البتہ وکیل کے طور پر پریکٹس کبھی نہیں کی۔ وہ نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے ریسرچ اینڈ پبلیکیشن ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ رہیں، علاوہ ازیں انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے عالمی ادب بھی پڑھایا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ دو ہزار بارہ میں ’’خواب کی ہتھیلی پر‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button