نہ گرفتِ شب سے نکل سکا
یہ خزاں رسیدہ بدن مرا
مرے حوصلوں کی صلیب پر
ترا ہجر جب سے لٹک رہا
ہے نہالِ تن پہ عجیب سا
کوئی سلسلہ
جو بدن پہ رینگتا جا رہاہے
رگوں میں گھس کے یہ ناچتا
تو یہ کرب سہنا محال تھا
اسی خوف سے
کہ یہ سلسلہ
کہیں ڈھل نہ جائے الاو میں
یہ لہو بدن میں ٹھہر گیا
مرے ضبطِ حال کو دیکھ کر
کئی روگ رستہ بدل گئے
میں فقط نہ روکے دکھا سکا
تری سرد مہری کے دور میں
مرے خواب آنکھوں میں جم گئے
عمران سیفی