- Advertisement -

ماڈل ٹاؤن

ایک اردو افسانہ از قاضی عبد الستار

کانٹے دار تاروں کی گھنی باڑھ دیکھ کر راستہ بھول جانے کااحساس ہوا۔ اس نے مڑ کر دیکھا ’’ڈی بلاک‘‘ کی یکساں یک رنگ چہار منزلہ عمارتوں کاجنگل کھڑا تھا۔ دروازوں دریچوں اور بالکنیوں میں کھڑے ہوئے بچے دور سے رنگ برنگ پھولوں کے گچھوں کے مانند نظر آرہے تھے۔ وہ آدھی عمارت کاچکر کاٹ کر سڑک پر آگیا۔ بس اسٹینڈ پر کھڑی ہوئی مسافروں کی لمبی قطار دیکھ کر اس نے اپنے آپ پر لعنت بھیجی کہ دو مہینے ہوگیے سڑک ناپتے ہوئے لیکن راستوں کا سبق یاد نہ ہوا۔

بس نظر آتے ہی ٹیڑھی میڑھی لکیر اکہری دوہری اور پھر تہری ہوگئی۔ انسانوں کا ایک سیلاب اترنے والوں کو دھکیلتا ہوا دروازے میں دھنسنے لگا۔ اس کی آنکھیں بندہوگئیں۔ مٹھیاں بند ہوگئیں اور ہونٹ بھنچ گئے۔ جب ہوش آیا تو وہ بس کے اندر تھا۔ نگاہ سیٹ کی تلاش میں جھپٹ رہی تھی کہ کسی نے اس کا بازو پکڑ کر اپنے پاس بٹھالیا۔ قلم اور چشمے سے مطمئن ہوکر پہلو میں بیٹھے ہوئے آدمی کو دیکھا۔ وہ مسکرا رہا تھا۔ انجن کے شور سے پس منظر میں اس نے اپنی آواز سنی۔ ارے آپ؟۔۔۔ ریاض بھائی۔ اور سڑک پر بھاگتی ہوئی بسوں کی طرح اس کے ذہن میں خیالات اڑنےلگے۔ وہ اپنی ہونےوالی بیوی غزالہ کو دیکھ کر اور پسند کرکے واپس آرہاتھا کہ کسی نے اس کے کان میں کہا، ’’غزالہ کی شادی اس کے ماموں اعجاز صاحب ایم۔پی سے کر رہے ہیں۔‘‘

’’تو آپ نے پہچان ہی لیا۔۔۔ ورنہ‘‘

اورجہیز میں تم کو چار سو روپے کی نوکری دے رہے ہیں اور یہ پاپڑ وہ اس لیے بیل رہے ہیں کہ غزالہ ان کے گھر میں رہتی ہے جوان کی بیوہ بہن کی بیٹی اور ضدی بیٹے ریاض کی محبوبہ ہے۔ غزالہ اکیلی ڈولی میں سوار نہ ہوگی۔

’’دلی میں تو لوگ آنکھوں سے پہچان لیتے ہیں لیکن زبان سےاجنبی بن جاتے ہیں۔‘‘

غزالہ کے ساتھ اس کی ماں کے سر کا پہاڑ اور اعجاز صاحب کے دل کا بوجھ بھی کوٹھی سےنکل کر ڈولی میں بیٹھ جائےگا۔

’’آپ کب تشریف لائے؟‘‘

اور ریاض کی شادی کے راستے پر کھڑا ہوا آہنی پھاٹک آپ ہی آپ کھل جائےگا۔ اس نے بھاری بھرکم اور گوری چٹی غزالہ کو گھور کر دیکھا تو اس کے گالوں پر ریاض بھائی کے ہونٹوں کی مہریں لو دینے لگیں۔ کمر پر ریاض بھائی کی بانہوں کے نشان ابھر آئے۔

’’میں تو کئی روز سے یہاں ہوں۔‘‘

لیکن جیب کی بیماری سے نجات پانے کے لیے اس نے غزالہ کو قبول کرلیا۔ مسلسل بے کاری سےنجات پانے کے لیے اس نے شادی کرلی۔ کڑوی کسیلی دواکا لبریز پیالہ آنکھیں بند کرکے نگل گیا۔

’’کہاں قیام ہے آپ کا؟‘‘

پھر اعجاز صاحب کی سفارش نے اسے دو کمروں کا فلیٹ بھی دلادیا۔ جس دن اس کو فلیٹ ملااسی کے چند روز بعد غزالہ کو لے آیا۔

’’یہیں ماڈل ٹاؤن میں!‘‘

پورے دو مہینے بھی نہیں ہوئے غزالہ کو دہلی آئے اور

’’اچھا‘‘

اور ریاض بھائی بے قرار ہوگیے۔ بے چین ہوگیے۔

’’شام کو پانچ بجے آپ ریگل کے سامنے مل رہے ہیں؟‘‘

’’جی‘‘

ایک دھچکے کے ساتھ بس رک گئی۔ ریاض بھائی کھڑے ہوگیے اور مسافروں کی رینگتی ہوئی قطار میں گم ہوتے ہوتےچیخے،’’آج پانچ بجے ریگل کے سامنے۔‘‘

آفس سے نکلتے ہوئے اس نے تیواری سے دس روپے قرض مانگ لیے۔ دس بارہ اس کی جیب میں پہلے سے پڑے تھے۔ وہ آسودہ قدم اٹھاتا ہواریگل ٹاکیز کے سامنے آگیا۔ گھڑی پر نگاہ کی، پانچ بج رہے تھے۔ سارے منظر پر دھندکا باریک نقاب پڑا تھا۔ تیز ہوا کی ٹھنڈک کپڑوں سے چھنتی ہوئی ہڈیوں میں پیوست ہوتی جارہی تھی۔ اس نے اپنے نئے گرم کوٹ کا کالر کھڑا کرلیا، کلائیوں تک ہاتھ جیبوں میں ڈبولیے۔ سامنے آدمیوں کاچومکھا دریا بہہ رہاتھا۔ سب اسی طرح آگے پیچھے بھاگ رہے تھے جیسے سب کو آخری گاڑی پکڑنا ہو اور دیر ہوچکی ہو جیسے شکاریوں کو دیکھ کر سرمائی پرندے کے پرے جھیل پر اترنے کا ارادہ ملتوی کردیں اور سنسناتے ہوئے نکل جائیں۔ اینٹیں ڈھونےوالے ٹھیلوں کی طرح زندگیوں سےبھری ہوئی بسیں گزرتی رہیں۔ ریل گاڑی کے ڈبوں کی طرح ایک دوسرے کے پیچھے لگے ہوئے موٹروں کی قطاروں کے درمیان سے لوگ ایسے نکل رہے تھے جیسے ہاکی کاکھلاڑی دشمن ٹیم کو ڈاچ دیتا ہوا گول تک پہنچتا ہے۔

اس نےایک بار پھر گھڑی دیکھی اور چونک پڑا۔ چھ بج چکے تھے اور آوازوں کاسناٹا گہرا ہوگیا تھا۔ روشنیوں کا سیلاب چڑھ آیا تھا اور وہ ریاض بھائی کا انتظار کرتے کرتے تھک گیا تھا۔ اس نے سوچا ریاض بھائی سنیما دیکھنا چاہتے ہوں گے ورنہ ریگل کی شرط کیوں لگاتے۔ اگر اس نےٹکٹ نہ خریدا تو ریاض بھائی اس کو ۔۔۔ غزالہ کے شوہر کو مفلس خیال کریں گے۔ کنجوس سمجھیں گے۔ یہ خیال آتے ہی وہ لپکتا ہوا بکنگ ونڈو کےپاس جاکر کھڑا ہوگیا اس شو کاآخری ٹکٹ خریدا اور فلم شروع ہونےکے بعد ہال میں داخل ہوا۔

’’جن من گن‘‘کے شروع ہوتے ہی وہ ہال کے باہر آگیا۔ آسمانی سوٹ کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ڈھونڈتا رہا۔ جب تیسرے شو کی گھنٹی بج گئی تب وہ ریگل کے باہرنکلا۔ دھند کے بھاری نقاب کے پیچھے ٹمٹماتی روشنیاں کتنی اداس اور بیمار نظر آرہی تھیں۔ سماعت کے چیتھڑے اڑاڈالنےوالے شور میں کیسی دلدوز خاموشی پنہاں تھی۔ اور اس وقت اس کے چلو سےقطرہ قطرہ ٹپکےجارہاتھااور بس اسٹینڈ کی طرف بھاگ رہاتھا۔

بس آگئی ’’کیو ٹوٹ کر ڈبلیو‘‘ بن گیا۔ اس نے بھی اپنے آپ کو بھیڑ میں دھانس دیا۔ پائدان پر پاؤں رکھتے ہی احتیاط کے طور پر کنڈکٹر سے پوچھا،’’یہ کس نمبر کی بس ہے؟‘‘

’’آپ کوکہاں جانا ہے؟‘‘کنڈکٹر نے سوال پر سوال جڑدیا۔

’’ماڈل ٹاؤن۔‘‘

’’تو پیسے نکالو۔‘‘

اس نے پانچ کانوٹ پکڑا دیا۔

کنڈکٹر نےبہت سی ریزگاری کے بوجھ سے چرمرایا ہوا ٹکٹ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ اس نے مٹھی کو سنبھال کر کوٹ کی اندرونی جیب میں الٹ دیا اور پیچھے سے دھکا کھاکر بغیر ارادے کےآگے بڑھ گیا۔ پھر گوشت کی دیواروں میں پھنس گیا۔ بس چلتی رہی۔ بڑی دیر تک چلتی رہی۔ جتنے مسافر اترے ان سےزیادہ چڑھتے رہے اوروہ گھڑی کے پنڈولم کی طرح آگے پیچھے ہوتارہا۔ پھر کنڈکٹر نے صدا لگائی جس کے انتظار میں وہ بوڑھا ہوا جارہاتھا۔

’’ماڈل ٹاؤن۔‘‘

وہ دھکے کھاتا اور کھلاتا ہوا نیچے اتر آیا۔ ایسا معلوم ہواجیسے وہ کہرکے سمندر میں پھاند پڑا۔ سفید دھواں ساانگڑائیاں لے رہاتھا اور کچھ نظر نہ آرہاتھا۔ سڑک کی روشنیاں پکڑے ہوئے جگنوؤں کی طرح جھلملارہی تھیں۔ وہ بھی دوسرے مسافروں کے ساتھ کڑھلتاہوا آگے بڑھا۔ اپنے اطمینان کے لیے ایک شخص سے پوچھنے لگا،’’بھائی صاحب یہ ماڈل ٹاؤن ہے؟‘‘

’’ہاں ہاں آپ کوکہاں جانا ہے‘‘

’’ڈی بلاک‘‘

’’تو آگے جاکر داہنےہاتھ گھوم جائیں۔‘‘

وہ خوش ہوکر کہرے کے سمندر میں تیرنے لگا۔ پھر وہ پٹرول کی ٹنکی آگئی جس کی پشت سے اس کے بلاک کو راستہ جاتاتھا۔ پھر لوہے کاپھاٹک بھی آگیا۔ اب دھند کی چادر مہین ہوگئی تھی آب رواں کے مانند۔ اور وہ چہار منزلہ عمارت کے صحن میں تھا۔ اس نے پہلا زینہ چھوڑ دیا۔ دوسرا زینہ آیا اس کے پاس ہی سفیدی کا ڈرم پڑاتھا۔وہ گھر پہنچنے کی خوشی سے چھلک اٹھا۔ سیڑھیاں چڑھ کر تیسری منزل پر پہنچ گیا۔ چوتھے دروازے پر استھانہ صاحب کی نیم پلیٹ لگی ہوئی تھی۔ اپنے دروازے کے سامنے پہنچتے ہی اس پر جیسے بجلی گرپڑی۔

ایک پٹ آدھے سے زیادہ کھلا ہوا تھا۔ برآمدے کا بلب روشن تھا۔ اور نل کے نیچے ریاض بھائی کھڑے تھے۔ آسمانی سوٹ پہنے اس کی طرف پشت کیےہاتھ دھو رہے تھے۔ پاس ہی کچن میں غزالہ اسٹو کے سامنے کھڑی تھی۔ سرخ شال کے دونوں کنارے اس کی پیٹھ پر برابر سے پڑے تھے۔ آٹا پیسنے والے انجن کی طرح اسٹو دھڑ دھڑا رہاتھا اور غزالہ کا سفید تندرست ہاتھ فرائی پان میں چمچہ چلارہا تھا۔ لاہی رنگ کی اسی ساری میں وہ صبح چھوڑ گیا تھا۔ اور جیسے اس کے پیروں میں کسی نے کیلیں ٹھونک دیں۔ وہ جم کر رہ گیا۔ پھر ریاض بھائی نے نل پر پڑی ہوئی نیلی تولیہ اٹھائی اورمنھ پونچھنے کچن میں گیے اور غزالہ کے بھاری کولہے پر ایک دھپ لگادی۔ اب وہ برداشت نہ کرسکا اور تیز تیز قدم رکھتا ہوا زینے پر آگیا۔

’’تو یہ ہیں۔۔۔ ریاض بھائی۔۔۔سستے رومانی ناولوں کے ہیرو۔۔۔مجھے ریگل بلالیا تاکہ میں دفتر سے گھر نہ آسکوں۔ ان کاانتظار کرتے کرتےفلم دیکھنےلگوں اور وہ فلم کے ہیرو کا پاٹ اداکریں۔‘‘

’’اور غزالہ؟‘‘

’’غزالہ بھی ہیروئن ہوئی۔۔۔ تو گویا کہ میں رقیب ہوں۔‘‘

’’بچپن کی محبت پتھر کی لکیر ہوتی ہے میرے بھائی۔۔۔ تم تو غزالہ کے قانونی داشتہ ہو۔ تمہارے ہونٹوں پر چار سو روپے ماہوار کی مہر لگی ہوئی ہے۔‘‘

’’لیکن یہ دروازہ؟‘‘

’’جرم کا بھانڈا تو آخر کسی طرح پھوٹناہی چاہیے تھا۔‘‘

’’یا جھوٹی گندی معصومیت کے لنگڑے اظہار کے لیے اب کھول دیا ہو۔‘‘

’’اچھی بات ہے۔‘‘

اس نے اپنی باقاعدہ تلاشی لی۔ لیکن اس کے پاس کچھ نہ تھا۔ ہاتھ کی چھڑی تک نہ تھی۔ اگرچاقو مجھے مل جاتا تو اس ڈرامے کو انجام تک پہنچادیتا۔

’’اب میں کیا کروں؟‘‘

’’کیا کرسکتاہوں آخر؟‘‘

’’تم یہیں کھڑے رہو وہ اسی طرف آئے گا۔ اس کو زینے پر سے دھکا دے سکتےہو۔‘‘ پھر اس نے دیکھا کہ ریاض بھائی کاسر پھٹ گیا ہو اور وہ خون میں لت پت فرش پر ڈھیر ہوں۔ اس نے اپنےدل کے زخم میں ٹھنڈک محسوس کی۔ پھرزینے پر قدموں کی چاپ ہوئی، کوئی سیڑھیاں چڑھتا اسی طرف آرہاتھا۔ اس نےسانس روک لی اور پرچھائیں کی طرح دیوار سے چمٹ گیا۔ آنےوالا پہلے ٹھٹکا پھر اس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔

’’کون؟‘‘

’’تم کون ہو؟‘‘

’’جی ۔۔۔ م ۔۔۔ میں۔‘‘

موٹے موٹے رسوں کی طرح دو بانہیں اس کی کمر سے لپٹ گئیں۔ پھر جیسے دیواریں توڑ کرآدمی نکل آئے ،کھڑکیوں اور دروازوں سے انسان ابلنےلگے اور وہ آوازوں کے زہریلےآبشار میں شرابور ہوگیا۔ دھاردار آوازوں کے زخموں سے لہولہان ہوگیا۔ اب وہ روشنی کی چادر کے نیچے کھڑا تھا۔ کئی جوڑ آنکھیں اسے گھور رہی تھیں۔ آوازیں اپنی گزشتہ چوریوں کی تفصیل سنارہی تھیں، آوازیں اس کو شناخت کرنےکادعویٰ کر رہی تھیں اور آوازیں ایک ساتھ اس سے متضاد سوالات کر رہی تھیں۔ پھر اس نے اپنی گڑ گڑاتی ہوئی آواز سنی۔

’’یہ۳/۱۱ فلیٹ میرا ہے۔۔۔ اس میں میری بیوی موجود ہے۔‘‘

’’ابے پاگل ہوگیا ہے۔۔۔ اس میں تو میں رہتاہوں۔‘‘

اس نے تڑپ کر دیکھا ایک آدمی آسمانی سوٹ پہنےگالیاں برساتی آنکھیں کھولے اس کو سارا سموچا نگل جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور مردوں کے غول کے پیچھے ایک بھاری بھرکم گوری چٹی عورت لاہی رنگ کی ساری باندھے اور سرخ شال اوڑھے پلکیں جھپکارہی تھی۔ تحیر اور بے بسی کا فوارہ اس کے منہ سے پھوٹ پڑا۔

’’یہ ماڈل ٹاؤن نہیں ہے؟‘‘

’’ہے‘‘

’’لیکن کون سا ماڈل ٹاؤن؟‘‘

’’ماڈل ٹاؤن کیمپ!‘‘

’’نہیں یہ ماڈل ٹاؤن کینٹ ہے۔‘‘

اس نے گڑگڑاکر اپنا آفس بیگ اس بوڑھے آدمی کے قدموں میں ڈال دیا جس کی آواز مہربانی کے صیقل سے روشن تھی۔

قاضی عبد الستار

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو افسانہ از قاضی عبد الستار