- Advertisement -

آج کل سے کچھ نہ طوفاں زا ہے چشم گریہ ناک

میر تقی میر کی ایک غزل

آج کل سے کچھ نہ طوفاں زا ہے چشم گریہ ناک
موجزن برسوں سے ہے دریا ہے چشم گریہ ناک

یوں نہ روئو تو نہ روئو ورنہ رود و چاہ سے
ہر قدم اس دشت میں پیدا ہے چشم گریہ ناک

دل سے آگے ٹک قدم رکھو تو پھر بھی دلبرو
سیر قابل دیدنی اک جا ہے چشم گریہ ناک

بے گداز دل نہیں امکان رونا اس قدر
تہ کو پہنچو خوب تو پردہ ہے چشم گریہ ناک

سوجھتا اپنا کرے کچھ ابر تو ہے مصلحت
جوش غم سے جیسے نابینا ہے چشم گریہ ناک

سبز ہے رو نے سے میرے گوشہ گوشہ دشت کا
باعث آبادی صحرا ہے چشم گریہ ناک

وے حنائی پامری آنکھوں ہی میں پھرتے ہیں میر
یعنی ہر دم اس کے زیر پا ہے چشم گریہ ناک

میر تقی میر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
میر تقی میر کی ایک غزل