آنکھ تھوڑی سی مقدر کی دھنی ہوتی ہے
روشنی ورنہ کہاں اتنی غنی ہوتی ہے
دل نکھرتا ہے اذیت کی خراشیں سہہ کر
پاک ہے دھوپ جو پت٘وں سے چھنی ہوتی ہے
دیکھ لیتے ہیں مری روح کا افلاس سبھی
جسم پر شکر کی چادر بھی تنی ہوتی ہے
تجربے ، طنز کے آداب سکھا دیتے ہیں
بات کرنا بھی کبھی کم سخنی ہوتی ہے
اب تو یوں ہے کہ فراموش کیے جانے کے غم
ہم بتائیں بھی تو پیماں شکنی ہوتی ہے
عزم چھِل جاتے ہیں روزی کی طنابیں کھیتے
اتنی آساں یہ کہاں کوہ کنی ہوتی ہے
خود پہ غص٘ہ تو اترتا بھی نہیں ہے میرا
آتے جاتے ہوئے لوگوں سے ٹھنی ہوتی ہے
ہم جو پتھر کو بھی تکلیف نہیں دے سکتے
خاک خوش ہوں گے جب آئینہ زنی ہوتی ہے
آپ تو وجد سمجھتے ہیں ، فقیروں کی دھمال
اور جو اپنی یہاں جاں پہ بنی ہوتی ہے ۔۔ !
گھر کو جلتے ہوئے دیکھوں گا سہولت سے ضمیر
اس دھویں کی بھی بہت چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ضمیر قیس