یہ شب و روز جو اک بے کلی رکھی ہوئی ہے
جانے کس حسن کی دیوانگی رکھی ہوئی ہے
وہ جو اک موج محبت ترے رخ پر جھلکی
آنکھ میں آج بھی اس کی نمی رکھی ہوئی ہے
وقت دیتا ہے جو پہچان تو یہ دیکھتا ہے
کس نے کس درد میں دل کی خوشی رکھی ہوئی ہے
آتی رہتی ہیں عجب عکس و صدا کی لہریں
میرے حصے کی کہیں شاعری رکھی ہوئی ہے
دشت کی چپ سے ابھرتی ہیں صدائیں کیا کیا
بحر کے شور میں کیا خامشی رکھی ہوئی ہے
کوئی دھن ہے پس اظہار سفر میں جس نے
میری غزلوں کی فضا اور سی رکھی ہوئی ہے
کم کہا اور سجھایا ہے زیادہ عالؔی
ایک اک سطر میں اک ان کہی رکھی ہوئی ہے
جلیل عالی