- Advertisement -

غیب سے کوئی اشارہ بھی تو ہو سکتا ہے

صدیق صائب کی ایک اردو غزل

غیب سے کوئی اشارہ بھی تو ہو سکتا ہے
یہ جو پتھر ہے ستارہ بھی تو ہو سکتا ہے

جس کے کہنے پہ ہمیں چھوڑ دیا ہے تو نے
کل وہی شخص ہمارا بھی تو ہو سکتا ہے

ایک تنکا جو سر ِ آب نظر آتا ہے
ڈوبتے وقت سہارا بھی تو ہو سکتا ہے

گر بصیرت ہو بصارت کی حقیقت کیا ہے
بند آنکھوں سے نظارہ بھی تو ہو سکتا ہے

یہ جو بے چین کیے رکھتا ہے دل کو صائب
خون کی شکل میں پارہ بھی تو ہو سکتا ہے

صدیق صائب

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از فاخرہ بتول