آوارگی میں حد سے گزر جانا چاہیے
لیکن کبھی کبھار تو گھر جانا چاہیے
اس بت سے عشق کیجیے لیکن کچھ اس طرح
پوچھے کوئی تو صاف مُکر جانا چاہیے
مجھ سے بچھڑ کے ان دنوں کس رنگ میں ہے وہ
یہ دیکھنے رقیب کے گھر جانا چاہیے
جس شام شاہزادی فقیروں کے گھر میں آئے
اُس شام وقت کو بھی ٹھہر جانا چاہیے
ربِّ وصال، وصل کا موسم تو آچکا
اب تو مرا نصیب سنور جانا چاہیے
جب ڈوبنا ہی ٹھہرا تو پھر ساحلوں پہ کیوں
اس کے لیے تو بیچ بھنور جانا چاہیے
بیٹھے رہو گے دشت میں کب تک حسن رضا
پاؤں میں جاگ اٹھا ہے سفر جانا چاہیے
حسن عباس رضا