پہلے قدموں پہ مجھے قیس نے ارشاد کیا
مرشدی آپ کو صحرا میں بہت یاد کیا
بعد میں جا کے پرندوں کو زباں دی اس نے
پہلے اک پیڑ میں آواز کو آباد کیا
اسم کو جسم سے آلودہ نہیں ہونے دیا
دودھ کو دودھ سمجھنے کا سبق یاد کیا
رنگ اور پھول سے خوشبو کا تصور لے کر
میں نے احساس سے تصویر کو ایجاد کیا
اک ہی دریا سے بجھائی ہے ضرورت اپنی
اک ہی درویش کو تا عمر ہے استاد کیا
اس نے یوں خود کو نکالا ہے مرے دل سے منیر
جیسے بازو کسی تعویذ سے آزاد کیا
منیر جعفری