زخم خوردہ سے ہیں خوابوں کے ہرن کیا کیجے
ہجر میں ٹوٹتا جاتا ہے بدن کیا کیجے
رزمیہ گیتوں پہ لو دیتی تھیں آنکھیں اس کی
اوڑھ آیا ہے وہ پرچم کا کفن کیا کیجے
اپنی تنہائی تو کھانے کو کلیجہ مانگے
ایسی سفاک ہے اس شب کی دلہن کیا کیجے
بھولتا کب ہے یہ دل آپ کی بانہوں کا حصار
یاد آتا ہے مسافر کو وطن کیا کیجے
حجلہءِ غیر میں سونے کی جسارت کی تھی
تیغ سی بن گئی بستر کی شکن کیا کیجے
دل میں پیوست ہے برسوں سے جدائی کی کسک
یاد کے زخم ہیں زخموں کی جلن کیا کیجئے
جن کو بھی آپ نے بانہوں سے نکالا ہو گا
گھیر لے گی انہیں نا دیدہ گھٹن کیا کیجے
بشریٰ شہزادی







