یہ کِس ڈھب کے اجالے ہو رہے ہیں
اندھیرے اور گہرے ہو رہے ہیں
تو کیا اب حسن تیرا ڈھل رہا ہے
ترے بیمار اَچھّے ہو رہے ہیں
ترے نزدیک اگر کوئی نہیں ہے
تو پھر یہ کام کیسے ہو رہے ہیں
بجھائے پیاس کون اب قافلوں کی
کنویں بھی اب تو پیاسے ہو رہے ہیں
کسی کا عشق نیلا پڑ رہا ہے
کسی کے ہاتھ پیلے ہو رہے ہیں
جہاں میں باعثِ رونق ہوئے جو
وہ سب اللہ کو پیارے ہو رہے ہیں
ہوا ہے ہاتھ جب سے تنگ نازش!
مرے اپنے پرائے ہو رہے ہیں
شبیر نازش