تجھ فتنہ گر سے عرض ہے اتنے نہ وار کر
اس زلفِ عنبریں سے یوں پلو اتار کر
اک آئینہ نہ حسن ہی کی تاب لا سکا
تو خود کو آئینے سے جو پلٹا سنوار کر
ساقی نہ لے سہارا تو ہر دن شراب کا
پیدا کبھی تو نظروں میں اپنی خُمار کر
یہ دست بوسی اوروں کو جائز ہو ساقیا
لازم ہے میرے واسطے آگے عذار کر
خستہ جی منصفی کا طریقہ تو دیکھیے
چلمن میں چھپ رہی ہے وہ مجھ کو نِہار کر
ذیشان احمد خستہ