یہ گل نہیں یہ شگوفے نہیں یہ خار نہیں
ہے چیز کون سی جو تیرا شاہکار نہیں
خیال تیری طرف ہو تو غم بھی بار نہیں
یہ کیا گلہ ہے کہ ماحول سازگار نہیں
چمن کو دیکھ کے دیکھو بنانے والے کو
مقام فکر بھی ہے صرف یہ بہار نہیں
تری نگاہ کرم کی امید ہے ورنہ
میرے گناہوں کا یا رب کوئی شمار نہیں
زمانہ راز ہے تو راز ہی رہے باقیؔ
اسی میں اپنا بھرم ہے کہ آشکار نہیں
باقی صدیقی