نم ہوا خود نہ کوئی موج نتھاری تو نے
عمر کس دجلۂ حیرت میں گزاری تو نے
رحم ہر شخص کی آنکھوں میں نظر آتا ہے
دیکھ حالت جو بنا دی ہے ہماری تو نے
دوسری بار محبت میں بڑی عجلت کی
مجھ سے سیکھی ہی نہیں صبر شعاری تو نے
ایک تو اپنے تماشے سے ہی شرمندہ ہوں
اس پہ یہ دکھ ہے کہ تالی نہیں ماری تو نے
آج بھی اس میں ہیں خوش باش ترے چھوڑے ہوئے
کل جو دیوار سے تصویر اتاری تو نے
کام جنگل میں مرا ختم ہوا اور اب سے
ہر پرندے کو بچانا ہے شکاری تو نے
میں جو اجڑا تو نہیں کوئی دعا بھی ، ھا ھا
اپنی اوقات دکھا دی ہے بھکاری تو نے
ہم وہ سف٘اک جو پھر ہارنے سب کچھ اپنا
آ کے کہتے ہیں کہ پہچانا جواری تو نے
ڈوبنے والے سے یہ طنزیہ پوچھوں گا ضمیر
میں نے تو ناؤ کو سمجھا تھا سواری ،،، تو نے ؟
ضمیر قیس