اردو شاعریاردو غزلیاتعباس تابش

یوں تو شیرازۂ جاں کر کے بہم اٹھتے ہیں

عباس تابش کی ایک اردو غزل

یوں تو شیرازۂ جاں کر کے بہم اٹھتے ہیں

بیٹھنے لگتا ہے دل جوں ہی قدم اٹھتے ہیں

ہم تو اس رزم گہ وقت میں رہتے ہیں جہاں

ہاتھ کٹ جائیں تو دانتوں سے علم اٹھتے ہیں

سہل انگار طبیعت کا برا ہو جس سے

ناز اٹھتے ہیں ترے اور نہ ستم اٹھتے ہیں

کوئی روندے تو اٹھاتے ہیں نگاہیں اپنی

ورنہ مٹی کی طرح راہ سے کم اٹھتے ہیں

نیند جاتی ہی نہیں عرض ہنر سے آگے

دفتر غم ہی سدا کر کے رقم اٹھتے ہیں

دن کی آغوش رضاعت سے نکل کر تابشؔ

رات کی رات کف خاک سے ہم اٹھتے ہیں

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button