- Advertisement -

کاغذ قلم دوات کے اندر رک جاتا ہے

آسناتھ کنول کی ایک اردو غزل

کاغذ قلم دوات کے اندر رک جاتا ہے

جو لمحہ اس ذات کے اندر رک جاتا ہے

سورج دن بھر زہر اگلتا رہتا ہے

چاند کا زعم بھی رات کے اندر رک جاتا ہے

پہلے سانس جما دیتا ہے ہونٹوں پر

پھر وہ اپنی گھات کے اندر رک جاتا ہے

نکل نہیں سکتا دھرتی کا بنجر پن

جو قطرہ برسات کے اندر رک جاتا ہے

حرف کا دیپ ہوا سے کیسے الجھے گا

یہ نقطہ ہر بات کے اندر رک جاتا ہے

ہجر کا موسم خاموشی اور رات کا ڈر

یادوں کی بارات کے اندر رک جاتا ہے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
عباس تابش کی ایک اردو غزل