ہوئی ہیں گویا گلاب آنکھیں
ہیں مانگیں مجھ سے حساب آنکھیں
ہیں دھانی جذبوں کی تانے چادر
بسی ہیں مجھ میں جو خواب آنکھیں
روانیِ بحر بھول جاؤ!
جو دیکھ لو یہ چناب آنکھیں!
عجب ہے یہ دورِ آگہی بھی
سراب سورج سراب آنکھیں
یہی ہے تکمیلِ حُسن ناہید
کہ زرد عارض، پُر آب آنکھیں
ناہید ورک