- Advertisement -

پرندے کچھ تو کہتے ہیں

گلناز کوثر کی ایک اردو نظم

پرندے اُجلے دن کی پہلی ساعت سے بھی پہلے جاگ جاتے ہیں
رسیلی ، میٹھی تانیں چھیڑتے ، کھڑکی بجاتے ہیں
پرندے نیند کی گاگر الٹ کر مسکراتے ہیں
مرے گھر سے نکل کر دور جاتے راستے پر پھیلی
تنہائی کی شاخیں توڑتے ہیں ۔۔۔ کھلکھلاتے ہیں
ہوائوں کو جھُلاتے ، پتیوں کو گُدگداتے۔۔۔۔
اجنبی چہروں ، مشینوں سے بھرے دفتر کے باہر
اک پرانے پیڑ پر آنکھیں گھُماتے ، غُل مچاتے
منتظر رہتے ہیں دن بھر کی تھکن سے چُور قدموں کے تلے پلکیں بچھانے کو
پرندے زرد شاموں میں اداسی گھولتے منظر اٹھائے ، رنگ بکھرائے
مرے ہمراہ آتے ہیں
لچکتی ڈالیوں پر گنگناتے، ڈولتے، ہنستے
مرے روٹھے ہوئے دل کو مناتے ہیں
پرندےملگجی منظر کی ویرانی، مری چٹخی ہوئی نظروں کے پس منظر میں
کیسا شور کرتے ہیں
ملائم بادلوں کے سرمئی ٹکڑوں پہ
بیتے موسموں کے عکس دھرتے ہیں
افق کے پار بجھتی ، ڈوبتی کرنوں کے خاکے میں
تمہارا نام بھرتے ہیں

گلناز کوثر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
گلناز کوثر کی ایک اردو نظم