رضیہ بٹ :شہر میں جو ہے سوگوار ہے آج
رضیہ بٹ پر فضہ پروین کا ایک مضمون
عالمی شہرت کی حامل مایہ ناز پاکستانی ادیبہ رضیہ بٹ داغ مفارقت دے گئیں۔ اردو زبان و ادب کا وہ مہتاب جہاں تاب جس نے19۔ مئی1924کو راول پنڈی کے افق سے روشنی کے سفر کا آغاز کیا پوری دنیا کو اپنی تخلیقی کامرانیوں اور علمی و ادبی ضیا پاشیوں سے بقعۂ نور کرنے کے بعد 4۔ اکتوبر 2012کی شام لاہور میں عدم کی بے کراں وادیوں میں اوجھل ہو گیا۔ اردو زبان و ادب کو اپنے خون دل سے نکھار عطا کرنے والی اس نابغہ ء روزگار تخلیق کار نے مسلسل آٹھ عشروں تک ادبی کہکشاں کو اپنی چکا چوند سے منور رکھا۔ اردو فکشن کی اس عظیم ادیبہ نے اردو ادب کی ثروت میں جو اضافہ کیا وہ تاریخ ادب میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ اردو زبان میں اکاون شہکار ناول اور تین سو پچاس سے زائد افسانے لکھ کر رضیہ بٹ نے شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام حاصل کیا۔ ان کے افسانے قلب اور روح کی ا تھاہ گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں اور یہ افسانے اپنے واحد تاثر سے قاری کو کہانی، کردار اور موضوع کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ جبر کے کریہہ چہرے سے نقاب ہٹا کر انھوں نے الم نصیبوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم ضرور آئے گا۔ ظلم کے سامنے سپر انداز ہونا ان کے نزدیک ایک اہانت آمیز فعل ہے۔ ان کا اسلوب ان کی ذات تھا۔ انھوں نے اردو فکشن میں تانیثیت کے حوالے سے جو قابل قدر کام کیا وہ انھیں ایک منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔ انھوں نے بلاشبہ افلاک کی وسعت کو چھو لیا اور ستاروں پر کمند ڈال کر اپنی فقید المثال کامرانیوں سے پوری دنیا میں اپنے منفرد اسلوب کی دھاک بٹھا دی۔ ایک رجحان ساز ادیبہ کی حیثیت سے انھوں نے ہمیشہ حریت ضمیر سے جینے کی راہ اپنائی اور حریت فکر و عمل کو علم بلند رکھا۔ وہ تمام عمر ستائش و صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورش لوح و قلم میں مصروف رہیں پاکستان میں خواتین کے مسائل پر انھوں نے نہایت خلوص اور دردمندی سے لکھا۔ جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے انھوں نے بنیادی انسانی حقوق اور انسانیت کے وقار اور سربلندی کا ہمیشہ اپنا مطمح نظر قرار دیا۔ ان کی وفات سے اردو فکشن کا ایک درخشاں عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔ ان کی الم ناک وفات کی خبر سن کر روح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو گیا۔ ایسی بے مثال تخلیق کار اب دنیا میں پھر کبھی پیدا نہیں ہو سکتی۔ ایسی ہفت اختر، زیرک، با کمال ، مستعد اور جامع صفات شخصیت کا دائمی مفارقت دے جانا ایک بہت بڑ ا قومی سانحہ ہے۔ ان کی وفات سے علمی اور ادبی سطح پر جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہیں ہو سکتا۔ ان کی یاد میں بزم ادب مدت تک سوگوار رہے گی۔
غم سے بھرتا نہیں دل ناشاد کس سے خالی ہوا جہاں آباد
رضیہ بٹ کا تعلق ایک کشمیری خاندان سے تھا۔ ان کے خاندان کی شاعر مشرق علامہ اقبال کے خاندان کے ساتھ رشتہ داری تھی۔ اس طرح دو عظیم علمی و ادبی خاندانوں کے قریبی تعلقات مسلسل پروان چڑھتے رہے۔ رضیہ بٹ کو اپنے گھر میں جو علمی و ادبی ماحول میسر آیا اس نے ان کی تخلیقی فعالیت کو مہمیز کیا اور ادبی صلاحیت کو صیقل کیا۔ وسیع النظری اور روشن خیالی ان کے گھر کے علمی و ادبی ماحول کی مرہون منت ہے۔ رضیہ بٹ کے والدین نے اپنی اولاد کی سیرت اور کردار کی تعمیر پر بھر پور توجہ دی۔ جب انھوں نے ہوش سنبھالا تو انھیں قابل رشک علمی و ادبی ماحول میسر آیا۔ ان کے گھر میں اس عہد کے متعدد رجحان ساز ادبی مجلات با قاعدگی سے آتے تھے۔ ان میں سے نیرنگ خیال، ساقی، عالم گیر اور بیسویں صدی قابل ذکر ہیں۔ رضیہ بٹ کے دس بہن بھائی تھے۔ ان کی والدہ اور والد نے اپنی اولاد کی شخصیت کی تعمیر پر خصوصی توجہ دی۔ عالمی کلاسیک سے انھیں جو دلچسپی تھی وہ والدین کے ذوق سلیم کا ثمر ہے۔ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو سونے سے قبل کہانیاں سنانا رضیہ بٹ کا معمول تھا۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہانی سننا اور کہانی سنانا ان کی فطرت ثانیہ ہے۔ رضیہ بٹ کو اللہ کریم نے حافظے کی غیر معمولی صلاحیت سے نوازا تھا۔ انھوں نے اپنے بزرگوں سے جو کہانیاں سنی تھیں وہ جب اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو سناتیں تو سب ہمہ تن گوش ہو کر سنتے۔ رفتہ رفتہ وہ اپنی طبع زاد کہانیاں بھی سنانے لگیں۔ اس طرح بچپن ہی سے وہ کہانی کے تخلیقی عمل کی جانب مائل ہو گئیں۔ ان کی پہلی کہانی ’’لرزش ‘‘ خواتین کے ادبی مجلے’’ حور ‘‘میں 1940کے وسط میں شائع ہوئی۔ لاہور سے شائع ہونے والا یہ ادبی مجلہ اس زمانے میں قارئین ادب میں بے حد مقبول تھا۔ یہ کہانی جو کہ سوتیلی ماں اور اس کے سوتیلے بیٹے کے گرد گھومتی ہے اسے قارئین نے بہت سراہا۔ عمرانی حوالے سے اس کہانی میں سوتیلی ماں کے اپنے سوتیلے بیٹے کے ساتھ مادرانہ شفقت کے جذبات سے خالی رویے پر گرفت کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کے خواتین کے ساتھ اہانت آمیز سلوک پر بھی تنقید کی گئی ہے۔ معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی ایسی بے اعتدالیاں، رویوں میں پایا جانے والا تضاد اور شقاوت آمیز نا انصافیاں حد درجہ تکلیف دہ ہیں۔ رضیہ بٹ نے ان تمام مسائل کو اپنے افسانوں کو موضوع بنایا۔ ان کے افسانوں میں حقیقت نگاری اور صداقت نگاری کا جو ارفع معیار نظر آتا ہے وہ ان کے منفرد اسلوب کا امتیازی وصف ہے۔
زمانہ طالب علمی ہی سے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار ہونے لگا۔ جب وہ پانچویں جماعت کی طالبہ تھیں تو ان کی مضمون نویسی کی کاپی دیکھ کر ان کی استاد ششدر رہ گئی۔ اس فطین طالبہ نے اپنے اشہب قلم کی جو لانیوں سے اپنی استاد کو بہت متاثر کیا۔ ان کی با ضابطہ اردو مضمون نویسی کا اعتراف اس وقت ہوا جب انھوں نے پانچویں جماعت کی طالبہ کی حیثیت سے اپنا پہلا طبع زاد مضموں ’’ریل کا سفر ‘‘ تحریر کیا۔ ہو نہار برو اکے چکنے چکنے پات کے مصداق ان کی تخلیقی صلاحیتیں اس تاثراتی مضمون میں نکھر کر سامنے آئیں یہ مضمون دراصل نو خیز ادیبہ رضیہ بٹ کے پشاور سے سیال کوٹ تک کے ریلوے سفر کے تاثرات پر مبنی تھا۔ جب وہ جماعت نہم کی طالبہ تھیں تو انھوں نے ’’محبت ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا۔ ان کی مضمون نگاری کی شہرت پورے تعلیمی ادارے میں پھیل گئی اور انھیں متعدد انعامات سے نوازا گیا۔ زبان و بیان اور اظہار پر اس قدر خلاقانہ دسترس ایک کم سن طالبہ کے لیے نعمت خداوندی کے مترادف ہے۔ جب وہ دسویں جماعت میں پہنچیں تو اردو کے مضمون میں ان کی استاد نے انھیں سو میں سے پورے سو نمبر دئیے۔ اس قدر بلند معیار کو دیکھ کر تمام اساتذہ دنگ رہ گئے۔ انگریز پرنسپل بھی اس ہو نہار طالبہ کی زبان دانی اور اظہار و ابلاغ کے انداز کو سراہنے لگی۔ ان کے اساتذہ کی متفقہ رائے تھی کہ یہ بچی بڑی ہو کر اردو زبان و ادب کا تابندہ ستارہ بنے گی۔ ادب، فنون لطیفہ اور موسیقی کے ساتھ انھیں گہرا لگاؤ تھا۔ جب وہ کم سن طالبہ تھیں تو اس زمانے سے وہ ترنم کے ساتھ حمد، نعت اور اردو کلاسیکی شعرا کا کلام پڑھتیں تو سننے والوں پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی۔ وہ قوالی بڑے شوق سے سنتی تھیں۔ امیر خسرو کا کلام انھیں بہت پسند تھا۔ پنجابی صوفی شعرا کا کلام بھی وہ پوری توجہ سے سنتیں اور ان سے متاثر ہو کر ان پر رقت طاری ہو جاتی۔ 1940میں وہ پشاور میں زیر تعلیم تھیں انھوں نے ادب اور فنون لطیفہ میں گہری دلچسپی لی۔ سکول اور کالج کی سطح پر منعقد ہونے والے ادبی پروگراموں میں انھوں نے ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پشاور کے ایک کالج میں انھوں نے انگریزی، فلسفہ، نفسیات، منطق اور فارسی میں اپنی قابلیت اور مہارت سے سب کو متاثر کیا۔ ۔ انھوں نے ڈرامے اور موسیقی کے پروگراموں میں بھی حصہ لیا کالج کے زمانے میں ایک ڈرامے میں ملکہ نور جہاں کا کردار ادا کیا۔ ان کی اداکاری کو دیکھ کر ناظرین کے دل پر ان کی فنی مہارت کے انمٹ نقوش ثبت ہوئے۔ جلد ہی انھوں نے فنون لطیفہ میں اپنی قابلیت کی دھاک بٹھا دی۔ رقص اور موسیقی سے ان کی دلچسپی کا یہ حال تھا کہ وہ ان کے جملہ نشیب و فراز پر گہری نظر رکھتیں۔ خاندان میں منعقد ہونے والی شادی بیاہ کی تقریبات میں وہ گیت بھی گاتیں اور اندرون خانہ اپنی ہم جولیوں کے ساتھ مل کر رقص میں بھی حصہ لیتیں اور اپنی خوشی کا بر ملا اظہار کرنے میں کبھی تامل نہ کرتیں۔ ان کی فعالیت کو دیکھ کر خاندان کے تمام بزرگ ان کی پذیرائی کرتے۔
زمانہ طالب علمی میں انھوں نے مسلم لیگ کی خواتین تنظیم میں شرکت کی اور تحریک پاکستان کے لیے بھر پور جدوجہد کا آغاز کیا۔ ان کی کوششوں سے اس علاقے میں مسلمان خواتین میں جذبۂ حریت کو بیدار کرنے میں نمایاں کامیابی ہوئی۔ مسلم لیگ کی تحریک آزادی کے لیے مناسب رقوم کی فراہمی کے لیے انھوں نے دیگر مسلمان طالبات کے کے ساتھ مل کر چندہ جمع کرنے کی مہم میں حصہ لیا اور معقول فنڈز جمع کرنے میں انھیں کامیابی ہوئی۔ مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت نے ان کی کاوشوں کو بہ نظر تحسین دیکھا۔ 1946کے آغاز میں ان کی شادی ہو گئی اور شادی کے بعد وہ اپنے شوہر کے ہمراہ انبالہ چلی گئیں۔ اس کے بعد ادب میں ان کی تخلیقی فعالیت بتدریج کم ہوتی چلی گئی۔ جلد ہی انھیں احساس ہوا کہ لکھنا تو ان کے لیے تزکیہ نفس کا ایک موثر وسیلہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کے والد نے انھیں 1950میں دوبارہ تخلیق ادب پر مائل کر لیا اور وہ پھر سے سرگرم عمل ہو گئیں۔ اس کے بعد رضیہ بٹ نے ریڈیو، فلم اور ڈ رامے کے لیے بھرپور تخلیقی کام کیا۔ ان کے ناول بہت مقبول ہوئے اور ان میں سے کچھ ناولوں کو فلمایا بھی گیا۔ ان کے ناولوں پر مبنی فلموں نے بے پناہ کامیابی حاصل کی۔ مثال کے طور پر نائلہ جیسی کامیاب فلم اپنی مثال آپ ہے۔ اپنے عہد میں اس فلم نے بہت مقبولیت حاصل کی۔ اس کی کہانی اور گیت سن کر لوگ دل تھام لیتے تھے۔ مجموعی طور پر ان کے آٹھ ناولوں کو فلمایا گیا جو ان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس فقید المثال کامرانی میں کوئی ان کا شریک اور سہیم نہیں۔ ان کے ناولوں پر مبنی جن فلموں نے ریکارڈ بزنس کیا ان میں نائلہ، صاعقہ، شبو، انیلا کو فلم بین حلقوں نے بے حدسراہا۔ یہ فلمیں اپنے پاکیزہ انداز، صحت مند تفریح اور حقیقی زندگی کی عکاسی کی بدولت طویل عرصہ تک عوام میں مقبول رہیں۔
رضیہ بٹ کی تصانیف کو پوری دنیا میں پذیرائی ملی۔ ان کے مشہور ناول چاہت، بانو، رابی، صاعقہ، قربان جاؤں، امریکی یاترا، ہم سفر، عاشی، بٹیا، معاملے دل کے، اسپین کاسفر، ناجی اور ، آدھی کہانی معیار اور وقار کی رفعت کے لحاظ سے اردو ادب میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلم کے لیے ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ٹیلی ویژن کے لیے سیریل ’’ناجیہ ‘‘ کو بھی بہت پذیرائی ملی۔ ناجیہ بھی ان کے ایک ناول کی تشکیل تھی۔ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ان کی علمی، ادبی اور قومی خدمات کے سامنے ہر با شعور انسان کا سر خم رہے گا۔ تاریخ ہر دور میں ان کے عظیم کام اور قابل احترام نام کی تعظیم کرے گی۔
رضیہ بٹ کو اللہ کریم نے ادب موسیقی اور فنون لطیفہ کے ذوق سلیم سے متمتع کیا تھا۔ وہ کلاسیکی موسیقی کی دلدادہ تھیں۔ اردو کلاسیکی شاعری اور جدید اردو ادب کی وہ دل دادہ تھیں۔ فن موسیقی کی وہ قدردان تھیں۔ وہ شمشاد بیگم، اقبال بانو، فریدہ خانم، نور جہاں، محمد رفیع، ، غلام علی، اسد امانت علی اور مہدی حسن کے فن کو قدر کی نگاہ سے دیکھتیں اور ان کے گائے ہوئے کلام کو نہایت اشتیاق سے سنتی تھیں۔ ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں وہ نیشنل جغرافک میں گہر ی دلچسپی لیتی تھیں، وہ کہا کر تی تھیں فطرت ہمیشہ خود ہی لالے کی حنا بندی میں مصروف عمل رہتی ہے۔ حسن ذاتی تکلف سے بے نیاز ہے اور قبائے گل کو آرائش و زیبائش کی احتیاج نہیں۔ اس وسیع و عریض عالم آب و گل میں جنگلوں، صحراؤں اور ریگستانوں میں پائی جانے والی حیات کا مطالعہ قدرت کاملہ پر ایمان کو پختہ تر کر دیتا ہے۔ خالق کائنات اپنی مخلوق کو کس طرح زندگی اور رزق عطا کرتا ہے۔ یہ چشم کشا صداقتیں انسان کے لیے فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرتی ہیں۔ پاکستانی فلموں میں انھوں نے گہری دلچسپی لی۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستانی فلموں میں جن ادا کاروں نے اپنے کمال فن کے جوہر دکھائے ہیں ان کو پوری دنیا میں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ آرٹ فلموں میں ناظرین کی عدم دلچسپی پر انھیں گہری تشویش تھی۔ وہ اپنی تہذیب و ثقافت کے فروغ پر ہمیشہ توجہ دیتی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ تہذیب کی بقا در اصل اقوام کی بقا کی ضامن ہے۔ ماضی کے تہذیبی اور ثقافتی ورثے پر انھیں ہمیشہ ناز رہا۔
ماضی میں وحید مراد اور زیبا، سنتوش اور صبیحہ محمد علی اور شمیم آرا نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھا کر پاکستانی اردو فلموں کو بلند معیار تک پہنچایا۔ ان کے ناولوں پر مبنی فلمیں نائلہ اور صاعقہ نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے اور سپر، ڈوپر ہٹ ثابت ہوئیں۔ ان فلموں کی وجہ سے انھیں جو شہرت اور مقبولیت نصیب ہوئی وہ اسے اللہ کریم کا انعام قرار دیتیں۔ 1960میں رضیہ بٹ کا آفتاب اقبال پورے عروج پر تھا۔ ان کی علمی و ادبی کامرانیوں کے چرچے پوری دنیا میں ہونے لگے تھے۔ اس کے باوجود وہ عجز انکسار کا پیکر بنی رہیں اور اپنی دھن میں مگن ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز تخلیق ادب کے کاموں میں مصروف رہیں۔ ان کی تحریریں اس عہد کے جن ممتاز ادبی مجلات کی زینت بنتی تھیں ان میں حور، زیب النسا، اردو ڈائجسٹ اور سیارہ ڈائجسٹ قابل ذکر ہیں۔ اردو ناول نگاری کے ارتقا پر تحقیقی نظر ڈالیں تو مولوی نذیر احمد دہلوی سے لے کر لمحۂ موجود تک کسی ناول نگار کے اتنی بڑی تعداد میں وقیع ناول اب تک زیور طباعت سے آراستہ نہیں ہو سکے۔ ان کے پہلے ناول ’’ناہید ‘‘کی اشاعت کے بعد ان کی شہرت کو چار چاند لگ گئے۔ اس کے بعد نائلہ اور نمو کی اشاعت نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ اردو میں ان کے ناول نورین، انیلا، صاعقہ، عاشی، جیت، ناجیہ، سبین، چاہت اور شائنہ اس قدر مقبول ہوئے کہ اب تک ان کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ یہ ناول سب سے زیادہ فروخت ہونے والے ناولوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس قدر شہرت اور مقبولیت دنیا کے بہت کم ادیبوں کے حصے میں آئی ہے۔ اردو فکشن کی تنقید نے رضیہ بٹ کے حقیقی تخلیقی مقام اور ادبی منصب کے تعین پر پوری توجہ نہیں دی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سید وقار عظیم کے بعد اردو فکشن کی عالمانہ تنقید اور تجزیہ ابھی توجہ طلب ہے۔ اردو فکشن کے نقادوں کو اس جانب فوری توجہ دینی چاہیے۔ رضیہ بٹ کو قبولیت عوام کی جو سند ملی وہ ان کے منفرد اسلوب کی دلیل ہے۔ سبک نکتہ چینیوں سے ان کا کمال فن اور منفرد اسلوب ہمیشہ بے نیاز رہے گا۔ رضیہ بٹ نے اردو فکشن کو مقدار اور معیار کے اعتبار سے جس انداز میں ثروت مند بنایا اس کا اعتراف ہر سطح پر کیا گیا۔ جب تک دنیا باقی ہے رضیہ بٹ کے زندہ الفاظ اور حقیقی واقعات پر مبنی تحریریں ان کا نام زندہ رکھیں گی۔ ریگ ساحل پہ رقم وقت کی تحریر تو اجل کے ہاتھوں مٹ سکتی ہے لیکن زندہ الفاظ کی تاثیر فنا سے نا آشنا ہوتی ہے۔ رضیہ بٹ اپنی ذات میں ایک انجمن اور ایک دنیا تھیں۔ ایسی دنیا جس سے ذوق سلیم رکھنے والے ادب کے سنجیدہ اور با وقار قارئین کی دنیا دائم آباد تھی۔ رضیہ بٹ نے اتنی دور اپنی نئی دنیا بسا لی ہے کہ اب اس دنیا تک جلد رسائی ممکن ہی نہیں۔ اس دنیا کے دراز کار جہاں میں الجھے ان کے لاکھوں مداح تقدیر کے ستم سہہ کر گریہ کناں ہیں اور نہایت بے بسی کے عالم میں مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کر کے اپنے جذبات حزیں کا اظہار کر کے اس لافانی ادیبہ کے ابد آشنا اسلوب کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
چاک کو تقدیر کے ممکن نہیں ہونا رفو تا قیامت سوزن تقدیر گر سیتی رہے
رضیہ بٹ کے ناول زیادہ تر زندگی کے حقیقی مسائل اور واقعات کے آئینہ دار ہیں۔ زندگی کے تمام رنگ ان کے ناولوں میں سمٹ آئے ہیں۔ ان کے ناول زندگی کے مسائل و مضمرات کا ایسا دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتے ہیں کہ قاری ان کو دیکھ کر مسحور ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ان کا ناول’’ ناسور ‘‘ زندگی کے تلخ حقائق کی گرہ کشائی کر نا ہے۔ اس ناول میں انھوں نے متعدد نفسیاتی گتھیوں کو سلجھانے کی سعی کی ہے۔ اس شہرہ ء آفاق ناول کے مطالعہ سے قاری پر رضیہ بٹ کے علم و آگہی کے بارے میں کئی حقائق کا انکشاف ہوتا ہے۔ ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے رضیہ بٹ نے اس ناول میں عصری آگہی پروان چڑھانے کی غرض سے علم نفسیات سے مدد لی ہے۔ فرائڈ کے نظریہ تحلیل نفسی کا اس ناول میں بر محل استعمال کیا گیا ہے۔ ارسطو کے تصور المیہ اور جدید نفسیات کے اصولوں کے مطابق رضیہ بٹ نے اپنی ناول نگاری کو بام عروج تک پہنچا دیا ہے۔ اس ناول میں رضیہ بٹ نے ایک چھ سال کی مظلوم بچی کی داستان غم بیان کی ہے جسے بڑی سفاکی سے اغوا کیا گیا اور اسے شرم ناک درندگی سے جنسی ہوس کا نشانہ بنا کر اس کی پوری زندگی کو حسرت و یاس کی تصویر بنا دیا گیا۔ اس پر جو کوہ ستم ٹوٹا اس کے مسموم اثرات سے اس کی زندگی کی تمام رتیں بے ثمر، آہیں بے اثر، امیدوں کی کلیاں شرر، پوری زندگی پر خطر اور گھر خوں میں تر ہو کر رہ گیا۔ رضیہ بٹ کے اسلوب کا اہم ترین وصف یہ ہے کہ ان کے موضوعات میں ندرت، تنوع اور جدت کی فراوانی ہے وہ حسن و رومان کے پامال موضوعات سے دامن بچاتے ہوئے نئے زمانے اور نئے صبح و شام کی جستجو میں مصروف رہتی ہیں۔ انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ افکار تازہ ہی کی بدولت جہاں تازہ کی نمود کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے ناولوں میں نفسیات، عمرانیات، تاریخ اور اس کے مسلسل عمل، سراغ رسانی، تجسس، سوانح، مہم جوئی خود نوشت، سفر نامہ، فطرت نگاری اور حقیقت نگاری کا کرشمہ دامن دل کھنچتا ہے۔ پاکستان ٹیلی ویژن نے ان کے جن ناولوں کو ٹیلی کاسٹ کیا ان میں آگ، انیلا، نورینہ اور تحریر کو ٹیلی ویژن کے با ذوق ناظرین کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ ان کے ریڈیو ڈرامے ’’ساس بہو‘‘ کو بھی سامعین نے بہت پسند کیا۔ رضیہ بٹ نے زندگی بھر لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھا۔ انھوں نے خواتین کی زندگی کے مسائل پر جو طر ز فغاں منتخب کی اس کی باز گشت ہر دور میں سنائی دیتی رہے گی۔ انھوں نے تانیثیت کے حوالے سے اسی روایت کو پروان چڑھایاجس کے فروغ اور ارتقا کئی ممتاز خواتین تخلیق کاروں کی مساعی شامل ہیں۔ ان میں واجدہ تبسم، صفیہ اختر، ممتاز شیریں، عصمت چغتائی، قرۃالعین حیدر، پروین شاکر، خدیجہ مستور اور ہاجرہ مسرور کی علمی اور ادبی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
رضیہ بٹ کی زندگی میں بہت نشیب و فراز آئے۔ ایک واقعہ نے ان کی زندگی کی تمام رعنائیوں کو گہنا دیا۔ ان کی خوب صورت بیٹی نے ان کی آغوش میں اپنی جان خالق حقیقی کے سپرد کر دی۔ جب بھی اس زخم کے رفو کی بات کی جاتی تو ان کی آنکھیں بھر آتیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس طرح کے جینے کو کہاں سے جگر لایا جائے۔ تمام عمر بھی اگر رفو گر ایسے زخموں کو رفو کرنے میں مصروف رہیں تو ان کے اندمال کی کوئی صورت پیدا نہیں ہو سکتی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صبر و تحمل اور مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا لازم ہے مگر کچھ سانحات ایسے بھی ہوتے ہیں اگر ان کا تزکیہ نفس نہ ہو اور آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح نہ برسیں تو وہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ رضیہ بٹ کی تخلیقی فعالیت پر بیٹی کی الم ناک وفات نے گہرے اثرات مرتب کیے لیکن جلد ہی وہ صبر و رضا کا پیکر بن کر لب اظہار پر تالے لگا کر بغیر آنسوؤں کے روتے ہوئے پرورش لوح و قلم میں مصروف ہو گئیں۔ ان کی شخصیت میں توازن اور اعتدال کا عنصر انھیں صابر و شاکر بنا دیتا تھا۔
ان کی اولاد نے 1985 کے بعد اپنا گھر بسالیا اور اپنے کاروبار کے سلسلے میں بیرون ملک رہا ئش اختیار کرلی۔ اس کے بعد جانگسل تنہائیوں نے ان کو اپنے نرغے میں لے لیا اور انھوں نے تخلیق ادب پر اپنی توجہ مر کوز کر دی۔ ان کی بڑی بہن ’’ نذیر آپا‘‘ جو ان کی بچپن کی رفیق اور مونس و غم خوار تھیں وہ 1991میں داغ مفارقت دے گئیں۔ اس کے بعد وہ بہت دل بر داشتہ رہنے لگی۔ 1998میں انھوں نے اپنی خود نوشت ’’بچھڑے لمحے ‘‘ لکھنے کا آغاز کیا۔ 2001یہ خود نوشت مکمل ہو گئی۔ اسے اردو خود نوشت میں اہم مقام حاصل ہے۔ اس خود نوشت میں انھوں نے اپنی زندگی کے سفر کے بارے میں تمام حقائق کو بلا کم و کاست زیب قرطاس کیا ہے۔ ان کا اسلوب پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منو ا لیتا ہے۔
رضیہ بٹ نے نے دنیا کے بیش تر ممالک کی سیاحت کی۔ ان کی تحریروں میں ان کے وسیع تجربات اور مشاہدات قاری پر وجدانی کیفیت طاری کر دیتے ہیں۔ ادب، تہذیب، سماج اور ثقافت کی عکاسی جس حقیقت پسندانہ انداز میں رضیہ بٹ نے کی وہ ان کے منفرد اسلوب کا ایک نمایاں ترین وصف ہے۔ وہ جزئیات نگاری پر بھر پور توجہ دیتی تھیں۔ خواتین کی زندگی کا کوئی پہلو ان کی بصیرت سے اوجھل نہیں رہتا تھا۔ نواسی سال کی عمر میں بھی وہ لکھنے اور کھل کر بات کر نے پر قادر تھیں۔ دنیا نے تجربات و حوادث کی صورت میں انھیں جو کچھ دیا وہ سب کچھ انھوں نے پوری دیانت سے قارئین ادب کی نذر کر دیا۔ انھوں نے اپنی قوت ارادی سے اپنی صلاحیتوں کوا اس طرح مجتمع کر لیا تھا کہ ان کے اعصاب کبھی بھی مضمحل نہ ہوئے۔ وہ قلم تھام کر ید بیضا کا معجزہ دکھانے پر قادر تھیں یہاں تک کہ فر شتہ اجل نے اس عظیم تخلیق کار سے قلم چھین لیا۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
فضہ پروین