بحرِ بے کنار تُو
میں ذرا سی آبجُو
عکس ہے خجل خجل
آئینے کے رو برُو
دوستوں نے دیکھ لی
کر کے میری جستجُو
اب مرا ہمزاد بھی
آ گیا ہے دوبدُو
پھول چن رہا تھا میں
تم تھے محوِ گفتگُو
تیرے در کو چھوڑ کے
پھر رہے ہیں کوبکُو
تذکرہ ہو چاند کا
یا تمہاری گفتگُو
آئینے سے بات کر
اے مرے آشفتہ خُو
دیکھ خاک زادوں کی
لامکاں کی آرزُو
بڑھے چلو یہی تو ہے
آبلوں کی آبرُو
تیر ےدر پہ پھول بھی
مانگتے ہیں رنگ و بُو
افتخار شاھد