اردو غزلیاتشاہد ذکیشعر و شاعری

دستکِ حرص پہ دروازہءِ شر کھلتا ہے

شاہد ذکی کی ایک اردو غزل

دستکِ حرص پہ دروازہءِ شر کھلتا ہے
حسبِ توفیقِ دعا بابِ اثر کھلتا ہے

شمع در طاق سمجھ سکتی ہے سورج خودکو
اصل دم خم تو سرِ رہگزر کھلتا ہے

مجھے تو وسعتِ دنیا بھی ہے کمرے جیسی
ایک دروازہ اِدھر ایک اُدھر کھلتا ہے

جس طرح عکس کوئی اصل سے بہتر بن جائے
جس طرح خواب کی حالت میں ہنر کھلتا ہے

اتنے کردار نبھائے ہیں کہ مجھ پر بھی مرا
اصل چہرہ نہیں کھلتا ہے اگر کھلتا ہے

تجھ کو اس دل کی سمجھ آئے گی آتے آتے
اجنبی شخص پہ تاخیر سے گھر کھلتا ہے

آئنہ گر اُسے پتھرائے ہوئے دیکھتے ہیں
وہ جو بے خوف و خطر آئنے پر کھلتا ہے

رشتہءِ رزق بس اک جسم پہ موقوف نہیں
نسل در نسل نوالے کا اثر کھلتا ہے

میرے اندر وہ اُجالا ہے کہ مجھ پر شاہد
رات کا رنگ بہ اندازِ سحر کھلتا ہے

شاہد ذکی

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button