لمحہ لمحہ وسعتِ کون و مکاں کی سیر کی
آگیا سو خوب میں نے خاکداں کی سیر کی
ایک لمحہ کے لیے تنہا نہیںہونے دیا
خود کو اپنے ساتھ رکھا جس جہاں کی سیر کی
تجھ سے مل کر آج اندازہ ہوا ہے زندگی
پہلے جتنی کی وہ گویا رائیگاں کی سیر کی
نیند سے جاگے ہیں کوئی خواب بھی دیکھا ہے کیا
دیکھا ہے تو بولیے شب بھر کہاں کی سیر کی
یاد ہے اک ایک گوشہ نقش ہے دل پر ہنوز
سیر تو وہ ہے جو شہرِ دلبراں کی سیر کی
تھک گیا تھا میں بدنمیں رہتے رہتے ایک دن
بھاگ نکلا اور جا کر آسماں کی سیر کی
جب سے میں بیعت ہوا ہوں سلسلے میں عشق کے
کچھ مکاں کی سیر کی پھر لامکاں کی سیر کی
پھول حیرت سے ہمیں دیکھا کیے، وقتِ وصال
گل بدن کے ساتھ آزر گلستاں کی سیر کی
دلاور علی آزر