مشتاق تیرے کر رہے ہیں تیرا انتظار
بجھ ہی نہ جائے اب یہ چراغِ امیدِ یار
پھر سے جلُو نصیب ہوئے ظلمتوں کے بعد
رب نے دیا ہے پھر سے نیا تجھ کو اختیار
حق پر ڈٹے ہوۓ ہیں یہی کہہ رہے حسین
سر ہی کٹیں گے جھک نہیں سکتے یہ شہسوار
ہوں بے لباس گر میں ترے روبرو، نہ سوچ!!
کھلتا ہے میری بندِ قبا کا سبھی پہ تار
میں تیرے سامنے جو ہوئی زیر، کر یقین!
اوروں کے سامنے نہ جھکے گا مرا وقار
پاؤں زمیں پہ رکھ ابھی مٹ جائے گا غرور
خاکی پہ کب جچا ہے تکبر بھرا خمار
میں اک مریض عشق ہوں مجھ کو عزیز ذات
خلوت ہو یا جلُو ہو مجھے اس کا انتظار
گھپلے کیے ہیں جتنے سبھی کے کھلیں گے باب
ہر جرم تیرا روز جزا ہوگا آشکار
بے شک نہ کھول فارحہ پے اپنے دل کا حال
لیکن نہ چھین مجھ سے کبھی اپنا تو حصار
فارحہ نوید