خاک تھی، چاندنی تھی ہوش سی بے ہوشی تھی
روشنی عکسِ بدن چوم کے اتراتی تھی
سر کٹے خوابوں کا اک جھاڑ ہے اور حنظل ہے
میں نے جس کھیت میں زرد آنکھ کبھی بوئی تھی
وہ کسی اور ہی مخلوق کی بستی ہو گی
چوک تھا، جام تھا، تسبیح تھی، خاموشی تھی
اک سمندر کبھی ٹپکا تھا مری آنکھوں سے
کشتیءِ نوح مرے دل میں چلا کرتی تھی
اب محبت ہے بہت سہل ہوس کی صورت
اب وہ دریا بھی نہیں سوہنی جدھر ڈوبی تھی
کلیم باسط