جو تو نہیں تو مری کوئی زندگانی نہیں
نہیں نہیں مرا مطلب یہ عمر فانی نہیں
وہ تتلیوں کے پروں پر بھی پھول کاڑھتا ہے
یہ لوگ کہتے ہیں اُس کی کوئی نشانی نہیں
ہمارا کرب کبھی رفتگاں سے پوچھیے گا
ہزار شب ہے مگر ایک بھی کہانی نہیں
میں اس میں ماضی و فردا کا حال دیکھتا ہوں
یہ اُس کا خواب ہے اور خواب یک زمانی نہیں
یہ ٹھیک ہے کہ مجھے روگ اور بھی ہیں مگر
خیالِ یار! نہیں ایسی بدگمانی نہیں
وہ یاد زینہ سے اترتے ہوئے یہ پوچھتی ہے
تمہارے پاس کوئی ایک بھی نشانی نہیں
قصیدہ گو مری اک بات گوشِ ہوش سے سن
دوام صدق کو ہے، لفظ جاودانی نہیں
میاں زمین کے مانند یہ محبت بھی
بہت قدیم ہے لیکن بہت پرانی نہیں
میں دشتِ جاں میں بکھر کر بھی شادماں ہوں سعود
کہ دکھ بہت ہیں مگر رنجِ رائیگانی نہیں
سعود عثمانی