آپ کا سلاماردو شاعریاردو غزلیاتصغیر احمد صغیر

جو وحشت ہے عقیدت بھی تو ہو سکتی ہے

ایک اردو غزل از صغیر احمد صغیر

جو وحشت ہے عقیدت بھی تو ہو سکتی ہے
میری یکطرفہ محبت بھی تو ہو سکتی ہے

بس یہی سوچ کے مندر میں نہیں جاتا میں
کوئی مورت تری صورت بھی تو ہو سکتی ہے

ٹال دیتے ہو یوں ہی ہنس کے مِری باتوں کو
میری باتوں میں حقیقت بھی تو ہو سکتی ہے

جب بہار آئے گلستاں کو نکل جاتا ہوں
تیرے چہرے کی زیارت بھی تو ہو سکتی ہے

تو بس اک بار کبھی دیکھ مری آنکھوں میں
کوئی تحریر عبارت بھی تو ہو سکتی ہے

روک کر ہاتھ عبادت بھی تو ہو سکتی ہے

میں صغیر اس لیے ہی جبر سہے جاتا ہوں
جبر کے بعد عنایت بھی تو ہو سکتی ہے

صغیر احمد صغیر

یہ غزل انڈیا میں گائی گئی ہے

صغیر احمد صغیر

پورا نام: ڈاکٹر صغیر احمد قلمی نام: صغیر احمد صغیر جائے پیدائش؛ رحیم یار خان. 1967. ابتدائی تعلیم: میٹرک: گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول، صادق آباد گریجویشن: خواجہ فرید گورنمنٹ کالج، رحیم یار خان ۔اعلٰی تعلیم: ایم ایس سی ذوآلوجی: پنجاب یونیورسٹی ایم اے تاریخ: پنجاب یونیورسٹی ایم فل؛ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان پی ایچ ڈی: بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان پیشہ: قوم کے بچوں کو حیاتیات پڑھاتے گزر گئی۔ ادبی سفر کا آغاز : اسّی کی دہائی سے لکھنا شروع کیا، پہلا شعری مجموعہ، (بھلا نہ دینا) میں اسّی اور نوّے کی دہائی کی شاعری شامل ہے۔ شرف ِ تلمذ : جناب امجد اسلام امجد اور جناب زاہد آفاق ایک شعری مجموعہ: بھلا نہ دینا رہائش.... لاہور ۔اخبارات یا رسائل سے وابستگی: پی ایچ ڈی شروع کرنے سے پہلے روزنامہ جنگ، روزنامہ نوائے وقت، روزنامہ خبریں اور بیاض میرے مضامین، کالم اور کلام شائع ہوتا تھا۔ اب دوبارہ سلسلہ شروع کرنے لگا ہوں۔ تعارفی شعر : اس عشق کے رستے کی بس دو ہی منازل ہیں یا دل میں اتر جانا ، یا دل سے اتر جانا (صغیر احمد صغیر)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button