اچھرہ واقعہ کے قابل غور پہلو
خوشبوئے قلم محمدصدیق پرہاروی
خاتون اے ایس پی گلبرگ سیدہ شہربانونقوی نے جان پرکھیل کراچھرہ میں غلط فہمی کی بنیادپرپیداہونے والے کشیدہ حالات میں پھنسی خاتون کوبحفاظت نکال کرسانحہ رونماہونے سے روک دیا ۔ پنجاب پولیس نے بہادرافسرکے لیے پولیس کے سب سے بڑے ایوارڈ قائداعظم میڈل کی سفارش کردی ہے ۔ آرمی جنرل حافظ عاصم منیر،وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازسمیت کئی شخصیات نے خاتوب پولیس افسرکوخراج تحسین پیش کیاہے ۔ خاتون اے ایس پی کے مطابق پولیس ایمرجنسی نمبر15پر ایک کال آئی کہ ایک خاتون گھوم رہی ہے ۔ اس نے جولباس پہناہواہے اس پراس طرح لکھاہواہے جس طرح قرآن میں لکھاہوتاہے ۔ ہم وہاں پہنچے تووہ خاتون ایک دکان میں تھی اوروہاں لوگوں کاہجوم تھا ۔ ہم اس خاتون کووہاں سے نکال کرلے آئے ۔
وہ خاتون جس نے وہ لباس پہناہواتھانے کہا کہ میں اچھرہ بازارگئی میں نے یہ جوکرتاپہناتھا میں نے ڈیزائن سمجھ کرلیا ۔ مجھے نہیں پتہ تھا اس پرکچھ اس طرح لکھا ہے جس سے لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ شایدکوئی عربی لکھی ہے ۔ میری ایسی کوئی نیت نہیں تھی ۔ یہ جوبھی ہواہے لاعلمی میں ہواہے لیکن میں پھربھی معافی مانگتی ہوں ۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہم مسلمان ہوکرگستاخی کریں گے ۔ میں اہلسنت سے ہوں میرے سسرحافظ قرآن ہیں دینی گھرانے سے ہمارا تعلق ہے ۔
خاتون اے ایس پی سیدہ شہربانونقوی کہتی ہیں اچھرہ کے پولیس اسٹیشن میں بیٹھے ہوئے تھے ہم نے کرتاسامنے رکھ دیا ۔ توان میں سے ایک کہتا ہے سرہم نے تویہ پہلے بھی کیاہواہے ۔ آج سے قبل دوہفتے یاتین ہفتے پہلے ہ میں ایک خاتون نظرآئی تھی بازار میں انہوں نے جوبرقعہ پہناہواتھا ۔ اس پرحروف لکھے ہوئے تھے ۔ ہم نے کہایہ توحروف جوہیں یہ تواسلام کے اندرقرآن پاک کے اندرلکھے جاتے(ہوتے) ہیں ۔ آپ یہ برقعہ اتاردیں ۔ اس خاتون کے خاوندبھی ساتھ تھے ۔ انہوں نے ہم سے معذرت کی خاتون نے ہم سے معذرت کی ۔ ان کونیابرقعہ لاکردیا ۔ انہوں نے وہ برقعہ لاکردکھایا ۔ اس عورت نے ہم نے کہا اتاریں اس طرح لکھاہواہے اس نے ہم سے بحث کی ۔ پھراس نے کہا میراجومحرم ہے وہ تومیرے ساتھ ہے وہ اگرمجھے منع نہیں کررہاتوآپ کیوں کر رہے ہیں ۔
جس دکان میں یہ سب ہوا اس دکان کامالک اورسامنے والی دکان میں کام کرنے والالڑکادونوں کہتے ہیں اس خاتون سے پوچھاگیا بی بی آپ نے یہ کیاپہناہواہے اس نے کہا آپ کوکیامسئلہ ہے کہ میں نے کیاپہناہواہے ۔ پھراس خاتون سے پوچھاگیا کہ آپ نے کہاں سے لیاہے خاتون بولی دبئی سے لیاہے ۔ لڑکاکہتا ہے پہلی بات تویہ ہے کہ اس نے عربی میں کچھ بھی نہیں ڈالاتھا لوگوں کونہیں پتہ تھا کہ کوئی سورتیں لکھی ہوئی ہیں مگرایسانہیں تھا ۔ عربی لکھی ہوئی تھی سورتیں نہیں لکھی ہوئی تھیں ۔ ایک اورشخص کہتا ہے کہ گوگل کازمانہ ہے ۔ کسی بھی لفظ کاترجمعہ کیاجاسکتاہے ۔ ایک شخص اس خاتون سے کہتا ہے آپ کویہ لباس نہیں پہننا چاہیے تھا ۔ یہ آپ اتاردیں آپ کوبرقعہ لاکردیتے ہیں وہ پہن لیں ۔ دکانداروں کے انٹرویوزکرنے والی لڑکی ایک اوردکاندارسے کہتی ہے ان پرالزام عائدکیے جارہے تھے گستاخی کررہی ہیں ۔ اس کے جواب میں وہ دکاندارکہتاہے جیساماحول پیداہوچکاتھا ہرکوئی دیکھنے والایاسننے والا یہی کہے گایہ غلط لباس پہناہواہے ۔ تحقیق کی توکچھ اورہی لفظ لکھے ہوئے تھے عربی ہ میں سمجھ آتی نہیں ہے کہ کیالکھا ہے ہ میں یہ پتہ ہے عربی میں جولکھا ہے قرآنی آیات ہی ہوسکتی ہیں ۔ وہ محسوس کیا ہم نے اسی وجہ سے ری ایکشن ہوا ۔ اچھرہ کی ایک مسجدکے امام مسجدکہتے ہیں ہم نے تھانے میں خاتون کالباس چیک کیا اس پرکوئی قرآنی آیات، کوئی حدیث نہیں لکھی ہوئی تھی عربی میں حلوہ ،حیات لکھا ہواتھا ۔
خاتون اے ایس پی شہربانونقوی نے اپنامنصبی فرض اداکرتے ہوئے اچھرہ لاہور میں سانحہ رونماہونے سے پہلے روک دیا ۔ جس پران کوعسکری وسیاسی قیادت، عوام کی طرف سے خراج تحسین پیش کیاجارہاہے ۔ جس وقت یہ سطورلکھی جارہی ہیں وہ سعودی عرب کی شاہی مہمان بننے جارہی ہیں ۔ ایسا ہونابھی چاہیے کہ جوکوئی بھی فرض شناسی کامظاہرہ کرے تواس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے ۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ہم اکثرواقعات میں کسی ایک یا دو پہلوءوں کولے لیتے ہیں ۔ ان پرہی بحث ومباحثہ ،تبصرے اورتجزیے کرنے لگ جاتے ہیں ۔ اس معاملہ کے دیگرپہلوءوں کی طرف ہماری کوئی توجہ نہیں ہوتی ۔ یہی کچھ مذکورہ واقعہ میں کیاجارہاہے ۔ خاتون اے ایس پی نے جس فرض شناسی کامظاہرہ کیاہے وہ اس واقعہ کاصرف ایک پہلوہے ۔ اس طرح کے اشتعال انگیزی کے واقعات جب بھی ہوتے ہیں توادارے اورمیڈیا اورعوام صرف ان کرداروں پر بات کرتے ہیں جومنظر میں ہوتے ہیں ۔ سوال تویہ بھی ہے کیایہ جاننے کی کوشش بھی کی گئی ہے کہ یہ جوبارباراشتعال انگیزی کے واقعات ہوتے ہیں یہ یوں ہی ہوجاتے ہیں یا اس میں کوئی پس پردہ کرداربھی شامل ہوتے ہیں ۔ اب اسی مذکورہ واقعہ کوہی دیکھ لیں ۔ ایک نیوزچینل میں ایک خاتون اینکرخاتون اے ایس پی سیدہ شہربانونقوی کا انٹرویوکرتے ہوئے یہ سوال کررہی تھیں کہ ایک امیدجاگی ہے یہ جولوگ غلط الزام لگاتے ہیں وہ آزادنہیں گھو میں گے ان کابھی احتساب ہوگا ۔ اوراسی پروگرام کی پٹی میں لکھا ہوا آرہاتھا کہ کیا توہین مذہب کاغلط الزام لگانے والوں کا احتساب نہیں ہوناچاہیے ۔ صرف توہین مذہب ہی کیوں غلط الزام کوئی بھی لگائے اس کا احتساب ہوناچاہیے ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے بدگمانی سے بچنے کاحکم دیاہے اوربعض بعدگمانی کوگناہ قراردیاہے ۔ کسی پرجھوٹا الزام لگانا تواس سے بھی زیادہ براہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھناضروری ہے اوریہ ہمارے اداروں کی ترجیح بھی ہوناچاہیے کہ بدگمانی کیوں ہوئی ۔ لوگوں کوغلط فہمی ہوئی توکیوں ہوئی ۔ صرف ان لوگوں پرفوکس نہیں کرلیناچاہیے جواس طرح کے واقعات میں اشتعال میں آجاتے ہیں ان اسباب کے سدباب کامستقل بندوبست بھی کرناچاہیے جن کی وجہ سے لوگوں میں غصہ واشتعال آجاتاہے ۔ وہ خاتون اینکرتوہین مذہب کے غلط الزام کی بات توکررہی تھیں ۔ جس وجہ سے یہ سب ہوا ۔ اس پراس نے کوئی بات نہیں کی ۔ جس خاتون نے عربی تحریر والالباس پہنا ہوا تھا وہ خود کہتی ہے کہ اس کاسسرحافظ قرآن ہے ۔ اس کاتعلق ایک دینی گھرانے سے ہے ۔ اسے اس طرح کالباس پہن کرگھرسے نکلنے سے پہلے یہ توسوچناچاہیے تھا لوگ جب اس لباس کی تحریر کودیکھیں گے توان کوبدگمانی یاغلط فہمی بھی ہوسکتی ہے ۔ اس کا شوہر بھی اس کے ساتھ تھا ۔ اگراس خاتون کے ذہن میں یہ خیال نہیں آیا تواس کے شوہرکوسوچناچاہیے تھا کہ اس طرح کالباس پہن کربازار میں نہیں جاناچاہیے جس سے لوگوں کوغلط فہمی ہونے کا اندیشہ ہو ۔ پھرجب لوگوں نے نشاندہی کردی تھی ۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اس لباس پرقرآن پاک کی کوئی آیت مبارکہ یاحدیث مبارکہ نہیں لکھی ہوئی تھی اس سے توکوئی بھی انکارنہیں کرسکتا کہ اس پرکچھ بھی نہیں لکھا ہواتھا ۔ کچھ نہ کچھ اس خاتون کے لباس پرلکھا ہوا ضرور تھا ۔ جب لوگوں نے نشاندہی کرتے ہوئے اس خاتون کووہ لباس اتارنے کاکہا تووہ الٹا بحث کرنے لگ گئی ۔ اگراس خاتون کاگھرنزدیک تھا تواسے اسی وقت واپس گھرجاناچاہیے تھا اوراس لباس کواتارکرکوئی اورلباس پہن لیناچاہیے تھا ۔ اگرگھرنزدیک نہیں تھا تواس کے شوہرکوچاہیے تھا کہ وہ کہتا کہ ہم گھر جا کر یہ لباس اتاردیں گے اوردوبارہ نہیں پہنیں گے ۔ اس واقعہ میں جواشتعال انگیزی پیداہورہی تھی وہ لوگوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے پیداہورہی تھی کہ خاتون نے نہ صرف غلطی ماننے سے انکارکیا بلکہ بحث بھی شروع کردی ۔ بعض دکانداروں کایہ کہنابھی اپنی جگہ درست ہے کہ یہ دیکھ لیناچاہیے تھا کہ کیالکھا ہواہے ۔ سوال تویہ بھی ہے کہ کیا ایسالباس پہننابھی چاہیے جس پرکچھ نہ کچھ لکھا ہو ۔ راقم الحروف نے اپنے شہرکے علمائے کرام سے رابطہ کیا توسب کا ایک ہی جواب تھا کہ ایسا لباس جس پرکچھ بھی تحریرہواسے پہننا شریعت میں منع ہے ۔ چاہے اس پراردوکاکوئی لفظ ہی لکھا ہو ۔ ایسا لباس نہ مردپہن سکتا ہے اورنہ ہی عورت ۔ ہم نے اس واقعہ کی بہت سی ویڈیوزدیکھی ہیں ۔ کسی بھی ویڈیو میں یہ سوال کسی نے نہیں پوچھا کہ کیا ایسالباس پہننابھی چاہیے یانہیں جس پرکچھ لکھا ہواہو ۔ کیوں کہ ہم کسی بھی معاملے کے کسی ایک یادوپہلوءوں کوہی دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں یاہ میں کسی بھی واقعہ کے ایک یادوپہلوہی دکھائے جاتے ہیں ۔ اس خاتون کواس وقت احساس ہوا اورمعافی مانگی جب معاملہ زیادہ بڑھ چکاتھا ۔ اگروہ اس وقت ایساکرلیتی جب لوگ نشاندہی کررہے تھے تومعاملہ وہاں تک نہ پہنچتا جہاں تک پہنچاہے ۔ اب بھی اسے احساس ہونے اورمعافی مانگنے میں زیادہ دیرنہیں لگی ۔ اچھرہ میں پیش آئے واقعہ میں لوگوں کاردعمل بالکل جائز اورموقع کے عین مطابق تھا ۔ اس خاتون کے لباس پرجس طرح لکھا ہواتھا جس طرح وہاں کے دکانداروں نے بھی کہا کہ کوئی بھی دیکھتا وہ یہی سمجھتا جووہاں کے لوگوں نے اس وقت سمجھا ۔ جب مردہوچاہے عورت دونوں کے لیے ایسالباس ہی پہناشریعت میں منع ہے جس پراردو میں ہی کچھ لکھا ہو ۔ توایسا لباس جس پرعربی کے الفاظ لکھے ہوں جن کوپڑھ کرلوگ یہ سمجھیں کہ یہ قرآن کے الفاظ لکھے ہیں کیسے پہناجاسکتا ہے ۔ ہم اللہ کے فضل وکرم سے مسلمان ہیں فیشن اورڈیزائن سے پہلے ہماری ترجیح یہ ہوناچاہیے کہ ہم یہ جوخریدنے،پہننے یافروخت کرنے جارہے ہیں اس بارے ہمارامذہب کیاکہتا ہے ۔ شریعت کیا کہتی ہے ۔ اورلوگ تودنیادارہوئے وہ دین کے بارے زیادہ نہیں جانتے مگرامام مسجدکوتواس وقت لوگوں کی مکمل راہنمائی کرنی چاہیے تھی ۔ امام مسجد کو بتانا چاہیے تھا کہ اگرچہ اس خاتون کے لباس میں قرآن یاحدیث کاکوئی لفظ نہیں لکھا ہوا پھربھی اس لباس کوپہنناجائزنہیں ہے ۔ ایسالباس نہیں پہن سکتے جس پرکچھ بھی لکھا ہواہو ۔ وہاں کے مستندعلمائے دین کوبلاناچاہیے تھا اوران سے پوچھناچاہیے تھا کہ کیا ایسا لباس پہنناچاہیے یانہیں جس پرعربی نہیں چاہے اردو بھی لکھی ہو ۔ جہاں ایک طرف اس واقعہ میں خاتون اے ایس پی کوخراج تحسین پیش کیاجارہاہے وہاں حوصلہ افزائی کے مستحق وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اس کی نشاندہی کی اوراس خاتون کواس لباس کی مزیدتوہین کرنے سے بچالیا ۔ خاتون اے ایس پی نے اس لباس میں ملبوس خاتون اوردیگرلوگوں کی جان بچائی جب کہ نشاندہی کرنے والوں نے اس خاتون کوہی نہیں اورخواتین اورلوگوں کوبھی تحریرشدہ لباس اورتحریرکی بے حرمتی سے بچالیا ۔ سوچیں پھرسوچیں کہ اگروہ لوگ بروقت نشاندہی نہ کرتے اس خاتون سے لباس اتارنے کامطالبہ نہ کرتے توجوخواتین بھی اس خاتون کواس لباس میں دیکھتیں وہ اس کوڈیزائن سمجھ اس طرح کے لباس پہنناشروع کردیتیں جس طرح اس خاتون نے ڈیزائن سمجھ کروہ لبا س لیاتھا ۔ خاتون اے ایس پی نے سانحہ رونماہونے سے پہلے روک دیا اورنشاندہی کرنے والوں نے بھی ایساہونے سے روک لیاجوآپ ابھی پڑھ چکے ہیں ۔ اس سے لفظوں کی بے حرمتی عام ہوجاتی اورا س کوروکنامشکل تر ہو جاتا ۔ لفظوں کابھی تقدس اوراحترام ہے ۔
خاتون اے ایس پی سیدہ شہربانونقوی نے اپنافرض اداکردیاہے اب معاشرے کے دیگرشعبوں اورافرادکوبھی اس سلسلہ میں اپنا اپنافرض ادا کر دینا چاہیے ۔ اس واقعہ کے بعدکتنے چینلز کے کتنے پروگراموں میں علماء کرام کوبلاکران سے یہ پوچھاگیاہے کہ کیا ایسالباس پہننابھی چاہیے یانہیں جس پرکچھ بھی تحریرہو ۔ اب تمام ٹی وی چینلز کولباس پربھی پروگرام کرنے چاہییں جن میں علمائے کرام اوردیگرماہرین کوبلاکران سے پوچھا جائے کہ کس طرح کالباس پہنناچاہیے اورکس طرح کانہیں کون سالباس ہمارے مذہب اسلام، ہمارے معاشرے،ہماری اقدار،ثقافت اورشخصیت کا آئینہ دارہے اورکون سا نہیں ۔ لباس پہننا کیوں ضروری ہے اوراس کے تقاضے کیاکیاہیں ۔ کیاہم یہ جولباس پہنے ہوئے ہیں کیا اس سے لباس کے شرعی، جسمانی اورشخصیاتی تقاضے بھی پورے ہورہے ہیں یاہم کسی اورکوفالوکرتے ہوئے یہ سب تقاضے نظراندازکرتے جارہے ہیں ۔ علمائے کرام کوبھی اس سلسلہ میں اپنافرض اداکرتے ہوئے لباس کے مندرجہ بالاتمام تقاضوں کواپنے خطابات میں وقتاًفوقتاً بیان کرتے رہناچاہیے ۔ ہمارے متعلقہ اداروں کوچیک کرناچاہیے کہ اگرفیکٹریوں او ر کارخانوں میں فیشن اورڈئزائن کے نام پرمردانہ اورزنانہ ایسے لباس تیارکیے جارہے ہیں جن پرکچھ الفاظ لکھے جارہے ہیں یا ایسے ڈیزائن بنائے جارہے ہوں جنہیں دیکھ کریہ لگے کہ اس لباس پرکچھ لکھا ہواہے تووہ ایسے کپڑوں کی تیاری روک دیں اور ایسے کپڑوں کی تیاری ،فروخت اورخریداری پرسخت پابندی لگائی جائے تاکہ ایسے اسباب کابروقت بلکہ وقت سے پہلے سدباب کیاجاسکے جس سے اچھرہ جیسے واقعہ کے دوبارہ رونماہونے کا اندیشہ بھی ہو ۔ اس تحریر میں ہم نے اپنے طورپراچھرہ واقعہ کے قابل غورمختلف پہلوءوں پرلکھنے کی کوشش کی ہے ۔ اس تحریرکوپڑھنے کے بعداگرکسی کویہ لگے کہ ہم کسی اشتعال انگیزی وغیرہ کی حمایت کررہے ہیں توایسابالکل بھی نہیں ہے ۔
محمدصدیق پرہاروی