ایسی بھی کیا جلدی پیارے جانے ملیں پھر یا نہ ملیں ہم
حفیظ ہوشیارپوری کی اردو غزل
ایسی بھی کیا جلدی پیارے جانے ملیں پھر یا نہ ملیں ہم
کون کہے گا پھر یہ فسانہ بیٹھ بھی جاؤ سن لو کوئی دم
وصل کی شیرینی میں پنہاں ہجر کی تلخی بھی ہے کم کم
تم سے ملنے کی بھی خوشی ہے تم سے جدا ہونے کا بھی غم
حسن و عشق جدا ہوتے ہیں جانے کیا طوفان اٹھے گا
حسن کی آنکھیں بھی ہیں پر نم عشق کی آنکھیں بھی ہیں پر نم
میری وفا تو نادانی تھی تم نے مگر یہ کیا ٹھانی تھی
کاش نہ کرتے مجھ سے محبت کاش نہ ہوتا دل کا یہ عالم
پروانے کی خاک پریشاں شمع کی لو بھی لرزاں لرزاں
محفل کی محفل ہے ویراں کون کرے اب کس کا ماتم
کچھ بھی ہو پر ان آنکھوں نے اکثر یہ عالم بھی دیکھا
عشق کی دنیا ناز سراپا حسن کی دنیا عجز مجسم
شہد شکن ہونٹوں کی لرزش عشرت باقی کا گہوارہ
دائرہ امکان تمنا نرم لچکتی بانہوں کے خم
اپنے اپنے دل کے ہاتھوں دونوں ہی برباد ہوئے ہیں
میں ہوں اور وفا کا رونا وہ ہیں اور جفا کا ماتم
ناکامی سی ناکامی ہے محرومی سی محرومی ہے
دل کا منانا سعیٔ مسلسل ان کو بھلانا کوشش پیہم
عہد وفا ہے اور بھی محکم تیری جدائی کے میں قرباں
تیری جدائی کے میں قرباں عہد وفا ہے اور بھی محکم
حفیظ ہوشیارپوری