اقبالی منظوماتاقبالیاتشعر و شاعری

ضمیرِ مغرب ہے تاجرانہ

علامہ اقبال کی ایک نظم

ضمیرِ مغرب ہے تاجرانہ، ضمیرِ مشرق ہے راہبانہ
وہاں دِگرگُوں ہے لحظہ لحظہ، یہاں بدلتا نہیں زمانہ

کنارِ دریا خضَر نے مجھ سے کہا بہ اندازِ محرمانہ
سکندری ہو، قلندری ہو، یہ سب طریقے ہیں ساحرانہ

حریف اپنا سمجھ رہے ہیں مجھے خدایانِ خانقاہی
اُنھیں یہ ڈر ہے کہ میرے نالوں سے شق نہ ہو سنگِ آستانہ

غلام قوموں کے علم و عرفاں کی ہے یہی رمزِ آشکارا
زمیں اگر تنگ ہے تو کیا ہے، فضائے گردُوں ہے بے کرانہ

خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہُوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ

مری اسیری پہ شاخِ گُل نے یہ کہہ کے صیّاد کو رُلایا
کہ ایسے پُرسوز نغمہ خواں کا گراں نہ تھا مجھ پہ آشیانہ

علامہ محمد اقبال

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button